Poetry لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Poetry لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعہ، 6 مئی، 2016

ﺍﺏ ﺟُﻨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﯼ ﺍﯾﺴﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ

ﺍﺏ ﺟُﻨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﯼ ﺍﯾﺴﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ
ﮨﺘﮭﮑﮍﯼ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﮨﻮ ، ﭘﺎؤﮞ ﻣﯿﮟ ﺯﻧﺠﯿﺮ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﺍُﻧﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮍﮬﺘﮯ ﮨﻮئے
ﮐﺎﺵ ، ﺟﻮ ﺧﻮﺍﺏ ﮨﮯ ، ﺍُﺱ ﮐﯽ ﻭﮨﯽ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ

ﺻﺮﻑ ﺗﻘﺪﯾﺮ ﭘﮧ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺑﮭﺮﻭﺳﮧ ﻧﮧ ﮐﺮﮮ
ﺣُﺴﻦِ ﻧﯿﺖ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ، ﮐﻮﺷﺶ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ، ﺗﺪﺑﯿﺮ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ

ﺟﻮ ﮐﮩﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ ﻭﮦ ﺗﻘﺪﯾﺮ ﮐﺎ ﻟﮑﮭﺎ نکلا
ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺗﻢ ﻭﺍﻗﻒِ ﺗﻘﺪﯾﺮ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ

ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻭﮦ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺏ ﺗﺠﮫ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﻮﮞ
ﺩُﻭﺭ ﮨﻮ ﺩﺭ ﺳﮯ ﻣﺮﮮ ، ﺑﮭﺎﮒ ﺑﮭﯽ ﺟﺎ ، ﺗِﯿﺮ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ

ﯾﮧ ﺟﻮ ﺻﻮﺭﺕ ﮨﻮ ، ﺗﻮ ﮐﭽﮫ ﻓﺮﻕ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﻧﮑﻠﯿﮟ
ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁﭖ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮞ ، ﺁﭖ ﮐﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ

ﺟﺐ ﮐﮩﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﺎﺝ ﻣﺤﻞ ﺑﻨﺘﺎ ﮨﮯ
ﺷﻮﻕِ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ، ﻗﺪﺭﺕِ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ

ﺁﻧﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﮨﻤﯿﮟ ﺿﺪ ﮨﮯ ﻧﮧ ﺍﻧﮑﺎﺭ ، ﻣﮕﺮ
ﺍُﻥ ﮐﯽ ﻣﺤﻔﻞ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻮﻗﯿﺮ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ

ﺁﭖ ﮐﯿﺎ ﺻﺮﻑ ﮐﻤﺎﮞ ﮐﮭﯿﻨﭻ ﮐﮯ ﺍِﺗﺮﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﻟُﻄﻒ ﺗﻮ ﺟﺐ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭼﻠّﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺗِﯿﺮ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ

ﺍﯾﺴﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﺮﮎِ ﺗﻌﻠﻖ ﻣﻤﮑﻦ
ﺗﻢ ﻣﺮﯼ ﺭُﻭﺡ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ، ﺗﻢ ﻣﺮﯼ ﺗﻘﺪﯾﺮ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ

ﮨﻢ ﺳﺰﺍﻭﺍﺭِ ﺟﻔﺎ ﻋﺸﻖ ﻣﯿﮟ ﮨﺮ ﺩﻡ ﮨﯿﮟ ﻧﺼﯿﺮؔ !
ﯾﮧ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ، ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻘﺼﯿﺮ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ

کلام حضرت الشیخ سید پیر نصیر الدین نصیر جیلانی رحمتہ اللّٰه تعالی علیہ گولڑہ شریف

ہفتہ، 30 اپریل، 2016

وہ لوٹ گیا میں بے چارہ دیکھتا رہا


وہ لوٹ گیا میں بے چارہ دیکھتا رہا
پھر بیچ بھنور بس کنارہ دیکھتا رہا

بے خود تو نہیں تھا مگر ڈوبتے ہوئے
ہر ایک تنکے میں سہارہ دیکھتا رہا

کچھ پل رکی تھی گاڑیاں پھر وہ بھی چل پڑیں
اور میں وہیں کھڑا اشارہ دیکھتا رہا

سب لوگ چاند دیکھنے آئے تھے عید کا
میں اس کے نام کا ستارہ دیکھتا رہا

ایک شب تنہاؔ بے وجہ میں جاگتا رہا
اپنے گناہ کا میں کفارہ دیکھتا رہا

غزل، طلحہ بن عاصم

جمعرات، 28 اپریل، 2016

مجھ کو اے میرے مالک بتا کیا کروں

مجھ کو اے میرے مالک بتا کیا کروں
جب رہا کچھ نہیں
جب بچا کچھ نہیں
کچھ بہے ایسا نہیں میرے اعمال میں
جس کے بدلے میں تجھ سے دعا کر سکوں
میرے افعال، کردار
سارے عمل ظاہری 
باطنی کچھ نہیں
نہ دعا میں اثر
نہ دوا میں ثمر
دل جو تھا تیرا گھر
اس میں مادہ سوا اب رہا کچھ نہیں
روح اور نفس کی جنگ تھی جو کبھی
اب تو وہ بھی نہیں
اب تو بس اور، بس اور ہی کی طلب
آگ بجھتی نہیں، جی بھی بھرتا نہیں
نفس مرتا نہیں
مجھ کو اے میرے مالک بتا کیا کروں
التجا کیا کروں
مجھ کو اے میرے مالک بتا کیا کروں؟!

بدھ، 27 اپریل، 2016

دیا میرے ہر زوال کو ، کمال تُم نے

دیا  میرے  ہر  زوال  کو ،  کمال تُم نے
دُنیا ئے دُکھ  سے کیا ، مالا مال تُم نے 

بے لوث چاہت بھی بن گئی اِک تُہمت
بخشا ہر تمغہِ الزام ، حسبِ حال تُم نے 

کر گئے کُوچ ، زندگی سے سب سُکھ 
پیار کے پنچھی پہ ، پھینکا جَال تُم نے 

ایجاد کیں  ہر لمحے نِت نئ وہ اذیتیں 
چھین لیا مجھ سے حُسن جمال تُم نے 

گُر سکھا دئیے، محبت میں مُنافقت کے 
بنا ڈالا مُجھے ستم گَر  بے مثال تُم نے 

" شھزادہ کبیر "

جمعہ، 22 اپریل، 2016

مجھ سے ملیئے

مجھ سے ملیئے .......!!
میں عورت ہوں
میں ممتا ہوں
میں بیٹی ہوں
میں عصمت ہوں
میں حوا ہوں
میں فاطمہ ہوں
میں مریم ہوں
پر یہ تو کتابی باتیں ہیں
اور بات اصل میں یہ ہے کہ
تشہیر کا ایک سامان ہوں میں
تذلیل کا اک عنوان ہوں میں
تحقیر ہے میری پیدائش
نفرت کے قابل چیز ہوں میں
میں ماں بهی ہوں
میں رسوا بهی
میں بہن بهی ہوں
میں گالی بهی
میں بیٹی بهی ہوں
بوجه بهی ہوں
مجھ سے ملیئے
میں عورت ہوں
اور میرا جرم فقط یہ ہے
کہ مردوں کی اس دنیا میں
میں عورت ہوں ....!!!

منگل، 19 اپریل، 2016

تو جو ہوگیا اُسے مان لے

" تو جو ہوگیا اُسے مان لے "

مان لے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کِسی ہاتھہ پر،، 
کِسی لوح پر ،،،،،
جو لِکھا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہی ایک حرف گماں ہیں ہم !!
خطِ گمشدہ میں لکھی گئی،،،
کوئی اجنبی سی زباں ہیں ہم !!
کسی اور خطہء درد پر،،
جو گزر گیا سو گزر گیا ۔۔۔۔۔۔!
کوئی بے نشاں سا نشاں ہیں ہم !!

"Invisible Tears"

پیر، 18 اپریل، 2016

سب مایا ہے


سب مایا ہے

سب مایا ہے، سب ڈھلتی پھرتی چھایا ہے
اس عشق میں ہم نے جو کھویا جو پایا ہے
جو تم نے کہا ہے، فیض نے جو فرمایا ہے
سب مایا ہے

ہاں گاہے گاہے دید کی دولت ہاتھ آئی
یا ایک وہ لذت نام ہے جس کا رسوائی
بس اس کے سوا تو جو بھی ثواب کمایا ہے
سب مایا ہے

اک نام تو باقی رہتا ہے، گر جان نہیں
جب دیکھ لیا اس سودے میں نقصان نہیں
تب شمع پہ دینے جان پتنگا آیا ہے
سب مایا ہے

معلوم ہمیں سب قیس میاں کا قصہ بھی
سب ایک سے ہیں، یہ رانجھا بھی یہ انشا بھی
فرہاد بھی جو اک نہر سی کھود کے لایا ہے
سب مایا ہے

کیوں درد کے نامے لکھتے لکھتے رات کرو 
جس سات سمندر پار کی نار کی بات کرو
اس نار سے کوئی ایک نے دھوکا کھایا ہے
سب مایا ہے

جس گوری پر ہم ایک غزل ہر شام لکھیں
تم جانتے ہو ہم کیونکر اس کا نام لکھیں
دل اس کی بھی چوکھٹ چوم کے واپس آیا ہے
سب مایا ہے

وہ لڑکی بھی جو چاند نگر کی رانی تھی
وہ جس کی الھڑ آنکھوں میں حیرانی تھی
آج اس نے بھی پیغام یہی بھجوایا ہے
سب مایا ہے

جو لوگ ابھی تک نام وفا کا لیتے ہیں
وہ جان کے دھوکے کھاتے، دھوکے دیتے ہیں
ہاں ٹھوک بجا کر ہم نے حکم لگایا ہے
سب مایا ہے

جب دیکھ لیا ہر شخص یہاں ہرجائی ہے
اس شہر سے دور ایک کُٹیا ہم نے بنائی ہے
اور اس کُٹیا کے ماتھے پر لکھوایا ہے
سب مایا ہے

(ابنِ انشا)

جمعہ، 15 اپریل، 2016

بول اے سکوتِ دل کہ درِ بے نشاں کھُلے

بول اے سکوتِ دل کہ درِ بے نشاں کھُلے
مجھ پرکبھی تو عقدہ ہفت آسماں کھُلے 

یوں دل سے ہمکلا م ہوئ یادِ رفتگاں!
جیسے اِک اجنبی سے کوئ رازداں کھُلے!

سہمی کھڑی ہیں خوفِ تلاتم سے کشتیاں
موجِ ہوَا کو ضد کی کوئ بادباں کھُلے 

وہ آنکھ نیم وا ہو تو دِل پھر سے جِی اُٹھیں
وہ لب ہلیں تو قفلِ سکوتِ جہاں کھُلے 

وہ جبر ہے کہ سوچ بھی لگتی ہے اجنبی 
ایسےمیں کس سے بات کریں،کیازباں کھُلے؟

جتنا ہوا سے بند ِ قبا کھُل گیا تِرا 
ہم لوگ اِس قدربھی کِسی سےکہاں کھُلے؟

محسنؔ کی موت اِتنا بڑا سانحہ نہ تھی
اِس سانحہ پہ بال ترے رائیگاں کھُلے
سید چمن عباس شاہ

ہم کو کس کے غم نے مارا یہ کہانی پھر سہی

ہم کو کس کے غم نے مارا یہ کہانی پھر سہی
کس نے توڑا دل ہمارا یہ کہانی پھر سہی

دل کے لُٹنے کا سبب نہ پوچھو سب کے سامنے 
نام آئے گا تمہارا یہ کہانی پھر سہی

نفرتوں کےتیر کھائے دوستوں کے شہر میں
ہم نے کس کس کو پکارا یہ کہانی پھر سہی

سوز عشق جان لیوا کیوں ہُوا
کس کا ڈولا خون سارا یہ کہانی پھر سہی

دوست دشمن دیکھ کر میرے حالات 
کر گئے سب کیوں کنارہ یہ کہانی پھر سہی

وقت مرگ زندگی کے واسطے 
کون تھا میراسہارا یہ کہانی پھر سہی

ہمارا دامن داغ دار ہے مگر 
کس نے رکھا ہم کو پیارا یہ کہانی پھر سہی

تڑپ گئے ترس گئے دیدار کو
چمکے گا پر کب ستارہ یہ کہانی پھر سہی

کیا بتائیں پیار کی بازی وفا کی راہ میں 
کون جیتا کون ہارا یہ کہانی پھر سہی

بدھ، 13 اپریل، 2016

"وقت"

"وقت"

وقت کیا ہے، وقت کا ادراک ہونا چاہیئے
یعنی ہم لوگوں کو اب چالاک ہونا چاہیئے 

وقت شاعر کا تخیّل، شعر بھی، تشریح بھی
وقت کرتا ہے غزل کے ساتھ اب تفریح بھی

وقت سورج کی تمازت وقت جگنو کی جهلک
وقت پهولوں کی نزاکت وقت کانٹوں کی کسک

دفعتاً تیور بدلنا وقت کا معمول ہے
وقت کی ہر اک ادا پهر بھی بہت مقبول ہے

وقت کی نظریں جمی ہیں خواب کی تعبیر پر
رونے والے رو رہے ہیں شومئی تقدیر پر

وقت آخر وقت ہے ہرگز ٹہر سکتا نہیں
جبر کر سکتا ہے لیکن صبر کر سکتا نہیں

وقت کی تقلید گویا کامیابی کی دلیل
وقت کا پابند ہوتا ہے یقیناً خودکفیل

لمحہ لمحہ وقت کا کرنا پڑے گا احترام
تب کہیں جا کر بنے گا پهر کوئی عبدالکلام

وقت کو رہبر بنا لو وقت اک تحریک ہے
باندھ لو رختِ سفر منزل بہت نزدیک ہے

وقت کو ابن حسن اپنا مقدر مان لو
اور ممکن ہو تو اپنے آپ کو پہچان لو

شاعر : ابن حسن بهٹکلی (ہندوستان)

منگل، 12 اپریل، 2016

شام سے آنکھ میں نمی سی ہے

شام سے آنکھ میں نمی سی ہے
آج پھر آپ کی کمی سی ہے

دفن کردو ہمیں کہ سانس ملے
نبض کچھ دیر سے تھمی سی ہے

کون پتھرا گیا ہے آنکھوں میں
برف پلکوں پہ کیوں جمی سی ہے

وقت رہتا نہیں کہیں ٹک کر
اس کی عادت بھی آدمی سی ہے

کوئی رشتہ نہیں رہا پھر بھی
ایک تسلیم لازمی سی ہے

آئیے راستے الگ کر لیں
یہ ضرورت بھی باہمی سی ہے

اتوار، 10 اپریل، 2016

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں 
روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں 

دیر نہیں، حرم نہیں، در نہیں، آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہ گزُر پہ ہم، غیر ہمیں اُٹھائے کیوں 

جب وہ جمالِ دل فروز، صورتِ مہرِ نیم روز
آپ ہی ہو نظارہ سوز، پردے میں منہ چھپائے کیوں 

دشنۂ غمزہ جاں سِتاں، ناوکِ ناز بے پناہ
تیرا ہی عکسِ رُخ سہی، سامنے تیرے آئے کیوں 

قیدِ حیات و بندِ غم، اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی، غم سے نجات پائے کیوں 

حُسن اور اُس پہ حُسنِ ظن، رہ گئی بوالہوس کی شرم
اپنے پہ اعتماد ہے، غیر کو آزمائے کیوں 

واں وہ غرورِ عزّ و ناز، یاں یہ حجابِ پاس وضع
راہ میں ہم ملیں کہاں، بزم میں وہ بلائے کیوں 

ہاں وہ نہیں خُدا پرست، جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہوں دین و دل عزیز، اُس کی گلی میں جائے کیوں 

غالبِ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا، کیجئے ہائے ہائے کیوں

مرزا غالب

مسکنِ ماہ و سال چھوڑ گیا

مسکنِ ماہ و سال چھوڑ گیا
دِل کو اُس کا خیال چھوڑ گیا

تازہ دم جسم و جاں تھے فُرقت میں
وصل، اُس کا نِڈھال چھوڑ گیا

عہدِ ماضی جو تھا عجب پُرحال !
ایک وِیران حال چھوڑ گیا

ژالہ باری کے مرحَلوں کا سفر
قافلے، پائمال چھوڑ گیا

دِل کو اب یہ بھی یاد ہو، کہ نہ ہو !
کون تھا، کیا ملال چھوڑ گیا

میں بھی اب خود سے ہُوں جواب طلب
وہ مجھے، بے سوال چھوڑ گیا

جون ایلیا

جمعرات، 7 اپریل، 2016

پھر سا ون رت کی پون

پھر سا ون رت کی پون

پھر سا ون رت کی پون چلی تم یا د آئے

پھر پتوں کی پا زیب بجی تم یا د آئے 

پھر کو نجیں بو لیں گھا س کے ہر ے سمندر میں 

رت آئی پیلے پھولوں کی تم یا د آئے 

پھر کا گا بو لا گھر کے سونے آنگن میں

پھر امرت رس کی بو ند پڑ ی تم یا د آئے 

پہلے تو میں چیخ کے رویا اور پھر ہسنے لگا 

بادل گر جا بجلی چمکی تم یاد آئے

دن بھر تو میں دنیا کے دھندوں میں کھویا رہا 

جب دیواروں سے دھوپ ڈھلی تم یاد آئے

نا صر ؔ کا ظمی

آلودہ پانی پینے سے ہرسال 53ہزار پاکستانی مرتے ہیں، یونیسیف

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے کہا ہے کہ آلودہ پانی پینےسے ہر سال 53 ہزار پاکستانی بچے موت کی نیند سو جاتے ہیں، پانی میں آلودگی ہیضہ، ہیپ...