بول اے سکوتِ دل کہ درِ بے نشاں کھُلے
مجھ پرکبھی تو عقدہ ہفت آسماں کھُلے
یوں دل سے ہمکلا م ہوئ یادِ رفتگاں!
جیسے اِک اجنبی سے کوئ رازداں کھُلے!
سہمی کھڑی ہیں خوفِ تلاتم سے کشتیاں
موجِ ہوَا کو ضد کی کوئ بادباں کھُلے
وہ آنکھ نیم وا ہو تو دِل پھر سے جِی اُٹھیں
وہ لب ہلیں تو قفلِ سکوتِ جہاں کھُلے
وہ جبر ہے کہ سوچ بھی لگتی ہے اجنبی
ایسےمیں کس سے بات کریں،کیازباں کھُلے؟
جتنا ہوا سے بند ِ قبا کھُل گیا تِرا
ہم لوگ اِس قدربھی کِسی سےکہاں کھُلے؟
محسنؔ کی موت اِتنا بڑا سانحہ نہ تھی
اِس سانحہ پہ بال ترے رائیگاں کھُلے
سید چمن عباس شاہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں