Islam لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Islam لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ، 29 نومبر، 2017

کامیاب شوہر بننے کے لیے 10 تجاویز


1۔شریکِ حیات کے لیے زیبائش اِختیار کیجیے:۔
اپنی شریکِ حیات کے لیے خُوبصورت لباس زیبِ تن کیجیے،خُوشبو لگائیے۔آپ آخری بار اپنی بیوی کے لیے کب بنے سنورے تھے؟؟یاد رکھیے کہ اللہ کے رسولﷺ گھر لوٹتے وقت مسواک استعمال کرتے اور ہمیشہ اچھی خُوشبو پسند فرماتے۔
2۔شریکِ حیات کے لیے خوبصورت نام کا چناؤ:۔
اپنی شریکِ حیات کے لیے خوبصورت نام کا اِستعمال کیجیے۔ اللہ کے رسُولﷺ اپنی ازواج کو ایسے ناموں سے پُکارتے جو اُنہیں بے حد پسند تھے۔اپنی شریکِ حیات کو محبوب ترین نام سےپُکارئیے، اور ایسے ناموںسے اجتناب کیجیے جن سےاُن کے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔
3۔ خوبیوں کی قدر کیجیے:۔
اپنی شریکِ حیات سے مکھی جیسا برتاؤ مت کیجیے۔اپنی روزمرہ زندگی میں ھم مکھی کے بارے میںسوچتے بھی نہیں،یہاں تک کہ وہ ہمیں تنگ کرے۔اسی طرح بعض اوقات عورت تمام دن اچھاکام کر کے بھی شوہر کی توجہ حاصل نہیں کر پاتی،یہاں تک کہ اُس کی کوئی غلطی شوہر کا دھیان کھینچ لیتی ہے۔ ایسا برتاؤ مت کیجیے،یہ غلط ہے۔ اُس کی خوبیوں کی قدر کیجیےاور انھی خوبیوں پر توجہ مرکوز کیجیے۔
4۔غلطیوں سے صرفِ نظر کیجیے:۔
اگر آپ اپنی شریکِ حیات سے کوئی غلطی سرزد ہوتے دیکھیں تو درگزر کیجیے۔ یہی طریقہ نبی اکرمﷺ نے اپنایا کہ جب آپﷺ نے ازواجِ مطہرات سےکچھ غیر موزوں ہوتے دیکھا تو آپﷺ نےخاموشی اختیار کی۔ اس اسلوب میں بہت کم مسلمان مرد ہی مہارت رکھتے ہیں۔
5۔شریکِ حیات کو دیکھ کر مسکرائیے:۔
جب بھی اپنی شریکِ حیات کو دیکھیں تو دیکھ کر مسکرا دیجیے ۔مُسکرانا صدقہ ہے اور آپ کی شریکِ حیات اُمّتِ مسلمہ سے الگ نہیں ہے۔ تصور کیجیے کہ آپ کی شریکِ حیات آپ کو ہمیشہ مسکراتے ہوۓ دیکھے تو آپ کی زندگی کیسی گزرے گی۔
6۔ شکریہ ادا کیجیے:۔
وہ تمام کام جو آپ کی شریکِ حیات آپ کے لیے کرتی ہیں،اُن سب کے لیے اُن کا شکریہ ادا کیجیے۔بار بار شکریہ ادا کیجیے،مثال کے طور پر گھر پر رات کا کھانا۔وہ آپ کے لیے کھانا بناتی ہے،گھر صاف کرتی ہےاور درجنوں دوسرے کام۔اور بعض اوقات واحد 'تعریف' جس کی وہ مستحق قرار پاتی ہے وہ یہ کہ 'آج سالن میں نمک کم تھا'۔ خدارا! ایسا مت کیجیے۔ اُس کے احسان مند رہیے۔
7۔شریکِ حیات کو خوش رکھیے:۔
اپنی شریکِ حیات سے کہیے کہ وہ ایسی 10 باتوںسے متعلق آگاہ کرے جو آپ نے اُس کے لیے کیں اور وہ چیزیں اُس کی خوشی کا باعث بنیں۔ پھرآپ ان چیزوں کو اپنی شریکِ حیات کے لیے دہرائیےہو سکتا ہے کہ یہ جاننا مشکل ہو کہ کیا چیز اسے خُوشی دے سکتی ہے۔ آپ اس بارے میں خود سے قیاس مت کیجیے،۔
8۔آرام کا خیال رکھیے:۔
اپنی شریکِ حیات کی خواہشات کو کم مت جانیے۔اسے آرام پہنچائیے۔ بعض اوقات شوہر اپنی بیویوں کی خواہشات کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ھیں۔ ایسا مت کیجیے۔نبیِ اکرمﷺ نے اس واقعے میں ہمارے لیے مثال قائم کر دی کہ 'حضرت صفیہ(رضی اللہُ عنھا)رو رھی تھیں،انھوں نے اس کی وجہ یہ بیان کی کہ آپﷺ نے انھیں ایک سست رفتار اونت پر سوار کروا دیا تھا۔ آپﷺ نے ان کے آنسو پونچھے، ان کو تسلی دی اور انہیںنیا اونٹ لا کر دیا'۔
9۔مزاح کیجیے:۔
اپنی شریکِ حیات سے مزاح کیجیے اور اس کا دل بہلائیے۔ دیکھیےکہ کیسے اللہ کے رسولﷺ حضرت عائشہ(رضی اللہُ عنھا) کے ساتھصحرا میں دوڑ لگاتے تھے۔آپ نے اس طرح کی کوئی باتاپنی بیوی کے ساتھ آخری مرتبہ کب کی؟؟
10-بہتر بننے کی کوشش کیجیے:۔
ہمیشہ نبی اکرمﷺ کے یہ الفاظ یاد رکھیے: ''تُم میں سے بہتروہ ہے جو اپنے گھر والوں کےساتھ بہتر برتاؤ کرنے والا ہے۔اور میں تم سب میں اپنے گھر والوں سے بہترین پیش آنے والا ہوں''۔آپ بھی بھتر بننے کی کوشش کیجیے۔آخر میں بالخصوص: اپنی ازدواجی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے اللہ کے حضور دعا کرنا مت بھولیے۔ اللہ بہتر جاننے والا ہے۔

بدھ، 25 اکتوبر، 2017

جنتی لاٹهی


یہ حضرت موسی علیہ السلام کی وہ مقدس لاٹھی ہے جس کو عصا موسی کہتے ہیں۔یہ لاٹھی حضرت موسی علیہ السلام کے قد برابر دس ہاتھ لمبی تھی اس کے سر پر دو شاخیں تھیں جو رات کو مشعل کی طرح روشن ہو جایا کرتی تھیں یہ جنت کے درخت پیلو کی لکڑی سے بنائی گئی تھی اور حضرت آدم علیہ السلام اس کو بہشت سے اپنے ساتھ لائے تھے ۔یہ مقدس عصا بطور میراث انبیاء کرام کو ملتا رہا یہاں تک کہ حضرت موسی علیہ السلام کو عطا ہوا ۔آپ اس مقدس لاٹھی سے بہت سے کام نکالتے رہے مگر تین معجزات کا ذکر قرآن کریم میں بار بار ایا
عصا اژدھا بن گیا
عصا مارنے سے چشمے جاری ہو گے
عصا کی مار سے دریا پھٹ گیا
چنانچہ قرآن کریم میں تینوں واقعات اس طرح ارشاد ہوئے ہے

بولے اے موسیٰ یا تو تم ڈالو یا ہم پہلے ڈالیں موسیٰ نے کہا بلکہ تمہیں ڈالو جبھی اُن کی رسیاں اور لاٹھیاں اُن کے جادو کے زور سے اُن کے خیال میں دوڑتی معلوم ہوئیں تو اپنے جی میں موسیٰ نے خوف پایا ہم نے فرمایا ڈر نہیں بیشک تو ہی غالب ہے اورڈال تو دے جو تیرے داہنے ہاتھ میں ہے اور اُن کی بناوٹوں کو نگل جائے گا وہ جو بنا کر لائے ہیں وہ تو جادوگر کا فریب ہے اور جادوگر کا بھلا نہیں ہوتا کہیں آوے تو سب جادوگر سجدے میں گرالئے گئے بولے ہم اس 
پر ایمان لائے جو ہارون اور موسیٰ کا رب ہے۔
۔اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی 
مانگا تو ہم نے فرمایا اس پتھر پر اپنا عصا مارو فوراً اس میں سے بارہ چشمے بہہ نکلے۔ ہر گروہ نے اپنا گھاٹ پہچان لیا۔

(پ1،البقرۃ: 60)
پھر جب آمنا سامنا ہوا دونوں گروہوں کا موسیٰ والوں نے کہا ہم کو اُنہوں نے آلیا موسیٰ نے فرمایا۔ یوں نہیں بیشک میرا رب میرے ساتھ ہے وہ مجھے اب راہ دیتا ہے تو ہم نے موسیٰ کو وحی فرمائی کہ دریا پر اپنا عصا مار تو جبھی دریا پھٹ گیا تو ہر حصہ ہو گیا جیسے بڑا پہاڑ۔ اور وہاں قریب لائے ہم دوسروں کو اور ہم نے بچالیا موسیٰ اور اس کے سب ساتھ والوں کو پھر دوسروں کو ڈبو دیا بیشک اس میں ضرور نشانی ہے اور اُن میں اکثر مسلمان نہ تھے۔

(پ19،الشعراء: 61 تا 67)
وجود نظر

گھر سے باہر نِکلتے ہی ھمارا دو قِسم کی عورتوں سے سامنا ہوتا ہے.

(1) پہلی قِسم؛ 
اُن عورتوں کی ہے جو عزیزِ مصر کی بیوی والی بیماری کا شکار ہیں. 
خوب بن سنور کر خوشبو لگائے بے پردہ..... زبانِ حال سے کہہ رھی ہوتی ہیں.

" هَيْتَ لَك " (یوسف :23)
لو آجاؤ.

(2) دوسری قِسم؛ 
وہ عورت جو ستر و حجاب کی پابند، 
لیکن کِسی مجبوری نے اسے گھر سے نکالا.... 
وہ زبانِ حال سے کہہ رھی ہوتی ہے. 

" لَا نَسْقِي حَتَّىٰ يُصْدِرَ الرِّعَاءُ ۖ وَأَبُونَا شَيْخٌ كَبِير ٌ" (القصص: 23)
جب تک یہ چرواہے واپس نہ لوٹ جائیں ہم پانی نہیں پلاتیں اور ہمارے والد بہت بڑی عمر کے بوڑھے ہیں.

پہلی قِسم کی عورتوں سے آپ وہی معاملہ کریں، 
جو حضرت یوسف علیہ السلام نے کیا تھا، 
یعنی کہیں؛ 

" مَعَاذَ اللَّهِ " (یوسف :23)
اللہ کی پناہ! 

اور دوسری قِسم کی عورتوں سے آپ وہی معاملہ کریں جو موسی علیہ السلام نے کیا تھا، یعنی ادب و احترام سے ان کی مدد کریں اور اپنے کام میں مشغول ہو جائیں اور اللہ کا فرمان یاد کریں؛ 

" فَسَقَىٰ لَهُمَا ثُمَّ تَوَلَّىٰ إِلَى الظِّلِّ " (القصص:24)

پس آپ نے خود ان جانوروں کو پانی پلا دیا پھر سائے کی طرف ہٹ آئے. 

" کیونکہ یوسف علیہ السلام اپنی عِفت و پاک دامنی کی بناء پر عزیزِ مصر بن گئے تھے. "
اور
" حضرت موسی علیہ السلام کے حُسنِ تعامل کی بناء پر اللہ نے اُنہیں نیک بیوی اور پاکیزہ رہائش عطأ فرمائی."

جمعہ، 28 اپریل، 2017

نماز کے چند فوائد

نماز پڑھنے کے بےشمار فوائد ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں:
1:نماز بڑی برکت اور فائدے والی چیز ہے۔
2:نماز پڑھنے سے انسان پاک اور صاف رہتا ہے۔
3:نماز سے وقت کی پابندی کی عادت پڑتی ہے۔
4:نماز برائی اور بے حیائی سے روکتی ہے۔
5:نماز سے دل کو سکون ملتا ہے۔
6:نماز میں صف بندی اور امام کی پیروی کرنے سے نظم وظبط کی عادت پیدا ہوتی ہے۔
7:نماز سے اتفاق واتحاد پیدا ہوتا ہے۔باجماعت نماز مساوات ارواتحاد کی علامت ہے۔
8:نماز باجماعت سے ایک دوسرے کے حالات سے آگاہی ہوتی ہے۔
9:نماز پڑھنے والوں میں ہمدردی اور محبت پیدا ہوتی ہے۔
10:نماز سےاللہ تعالی کی قربت حاصل ہوتی ہے۔

بدھ، 26 اپریل، 2017

عاجزی کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟ اس کا کیا اثرہوتاہے؟

اللہ تعالی کو عاجزی بہت پسندہےاورنمازاللہ تعالی کے سامنے انتہائی عاجزی کی صورت ہے۔
نماز میں اللہ تعالی کے سامنے ادب سے کھڑےہوکراورنمازدل لگاکراچھے طریقے سے ادا کرنےسے عاجزی کا اظہار ہوتاہے۔
جب ہم رکوع میں جھکتے ہیں تواسکےسامنے عاجزی کرتے ہیں۔
سجدےکی حالت میں انسان اللہ سےبہت قریب ہوجاتاہے۔
عاجزیاختیار کرنےسے اللہ اپنےبندوں سےخوش ہوتاہےاورانکےگناہ معاف کردیتاہے۔
نمازمیں عاجزی ہیمں غروراورتکبرسے روکتی ہے،اچھا انسان بناتی ہے۔
جو لوگ پھربھی برائیوں سے باز نہیں آتے وہ گویانمازکاحق ادا نہیں کرتے۔

پیر، 20 فروری، 2017

زندگی گزارنے کے آٹھ اصول

اللہ کریم مجھے اور آپ کو عمل کی توفیق عطا فرمائیں آمین.
ایک روز شیخ شفیق رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے شاگرد حاتم سے پوچھا.. "حاتم ! تم کتنے دنوں سے میرے ساتھ ہو..؟ " انہوں نے کہا.. "بتیس برس سے.." شیخ شفیق بلخی رحمتہ اللہ علیہ نے پوچھا.. "بتاؤ اتنے طویل عرصے میں تم نے مجھ سے کیا سیکھا..؟" حاتم رحمتہ اللہ علیہ نے کہا.. "صرف آٹھ مسئلے.." شیخ نے کہا.. "انا للہ وانا الیہ راجعون.. میرے اوقات تیرے اوپر ضائع چلے گئے.. تُو نے صرف آٹھ مسئلے سیکھے..؟" حاتم رحمتہ اللہ علیہ نے کہا.. "استادِ محترم ! زیادہ نہیں سیکھ سکا اور جھوٹ بھی نہیں بول سکتا.." شیخ نے کہا.. "اچھا بتاؤ کیا سیکھا ہے..؟"

حاتم رحمتہ اللہ علیہ نے کہا.. "میں نے مخلوق کو دیکھا تو معلوم ہوا ہر ایک کا محبوب ہوتا ہے قبر میں جانے تک.. جب بندہ قبر میں پہنچ جاتا ہے تو اپنے محبوب سے جدا ہو جاتا ہے.. اس لیے میں نے اپنا محبوب "نیکیوں" کو بنا لیا ہے کہ جب میں قبر میں جاؤں گا تو یہ میرا محبوب میرے ساتھ قبر میں رہے گا..

2: لوگوں کو دیکھا کہ کسی کے پاس قیمتی چیز ہے تو اسے سنبھال کر رکھتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے.. پھر فرمانِ الہی پڑھا.. "جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ خرچ ہو جانے والا ہے.. جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے.." (سورۃ النحل آیت 96)

تو جو چیز مجھے قیمتی ہاتھ آئی اسے اللہ کی طرف پھیر دیا تا کہ اس کے پاس محفوظ ہو جائے جو کبھی ضائع نہ ہو..

3: میں نے خدا کے فرمان پر غور کیا.. "اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا اور نفس کو بُری خواہشات سے باز رکھا' جنت اسی کا ٹھکانہ ہو گا.." (سورۃ النازعات آیت 40)

تو اپنے نفس کو بُرائیوں سے لگام دی.. خواہشاتِ نفسانی سے بچنے کی محنت کی یہاں تک کہ میرا نفس اطاعتِ الٰہی پر جم گیا..

3: لوگوں کو دیکھا ہر ایک کا رجحان دنیاوی مال' حسب نسب' دنیاوی جاہ و منصب میں پایا.. ان امور میں غور کرنے سے یہ چیزیں ہیچ دکھائی دیں.. اُدھر فرمان الٰہی دیکھا.. "درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے.." (سورۃ الحجرات آیت 13)

تو میں نے تقوٰی اختیار کیا تاکہ اللہ کے ہاں عزت پاؤں..

5: لوگوں میں یہ بھی دیکھا کہ آپس میں گمانِ بد رکھتے ہیں' ایک دوسرے کو بُرا کہتے ہیں.. دوسری طرف اللہ کا فرمان دیکھا.. "دنیا کی زندگی میں ان کی بسر اوقات کی ذرائع تو ہم نے ان کے درمیان تقسیم کیے ہیں.." (سورۃ الزخرف آیت 32)

اس لیے میں حسد کو چھوڑ کر خلق سے کنارہ کر لیا اور یقین ہوا کہ قسمت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے.. خلق کی عداوت سے باز آگیا..

6: لوگوں کو دیکھا کہ ایک دوسرے سے سرکشی اور کشت و خون کرتے ہیں.. اللہ کی طرف رجوع کیا تو فرمایا.. "درحقیقت شیطان تمہارا دشمن ہے اس لیے تم بھی اسے اپنا دشمن سمجھو.." (سورۃ فاطر آیت 6)

اس بنا پر میں نے صرف اس اکیلے شیطان کو اپنا دشمن ٹھہرا لیا اور اس بات کی کوشش کی کہ اس سے بچتا رہوں..

7: لوگوں کو دیکھا پارہ نان (روٹی کے ٹکرے) پر اپنے نفس کو ذلیل کر رہے ہیں' ناجائز امور میں قدم رکھتے ہیں.. میں نے ارشادِ باری تعالٰی دیکھا.. "زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو.." (سورۃ ہود آیت6)

پھر میں ان باتوں میں مشغول ہوا جو اللہ کے حقوق میرے ذمے ہیں.. اس رزق کی طلب ترک کی جو اللہ کے ذمے ہے..

8: میں نے خلق کو دیکھا ہر ایک کسی عارضی چیز پر بھروسہ کرتا ہے.. کوئی زمین پر بھروسہ کرتا ہے' کوئی اپنی تجارت پر' کوئی اپنے پیشے پر' کوئی بدن پر' کوئی ذہنی اور علمی صلاحیتوں پر بھروسہ کیے ہوئے ہے.. میں نے خدا کی طرف رجوع کیا.. یہ ارشاد دیکھا.. "جو اللہ پر بھروسہ کرے اس کے لیے وہ کافی ہے.." (سورۃ طلاق آیت3)

تو میں نے اپنےخدا پر توکل کیا.. وہی مجھے کافی ہے.."

شیخ بلخی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا.. "اے میرے پیارے شاگرد حاتم ! خدا تمہیں ان کی توفیق نصیب کرے.. میں نے قران کے علوم پر مطالعہ کیا تو ان سب کی اصل جڑ انہی آٹھ مسائل کو پایا.. ان پر عمل کرنے والا گویا چاروں آسمانی کتابوں کا عامل ہوا.. "

(بحوالہ الاحیاء العلوم غزالی)

جمعہ، 27 مئی، 2016

قرآنِ مجید سے پہلی کتابوں میں حضور ﷺاور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تذکرہ ۔ ۔

عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ میں حضرتِ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہُ سے ملا تو میں نے ان سے کہا کہ مجھے حضور ﷺ کی صفات بتائیں جو تورات میں آئی ہیؐ۔ انہون نے فرمایا بہت اچھا خدا کی قسم ! تورات میں بھی آپ کی وہی
صفات بیان ہوئی ہیں جو قرآن مجید میں ہیں(چنانچہ تورات میں ہے) اے نبی!ہم نے آپ کو گواہ اور بشارت دینے والا اور ڈرانے والا اور امیوں کی حفاظت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ آپ میرے بندے اور میرے رسول ہیں، میں نے اس کا
نام متوکل رکھا ہے،نہ آپ سخت گو ہیں نہ سخت دل نہ بازاروں میں شور کرنے والے ہیں، اور نہ آپ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے ہیں بلکہ آپ عفو و درگزر سے کال لیتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ آپ کو اس وقت دنیا سے اُٹھائیں گے جبکہ لوگ لاالہ
الا اللہ کہہ کر ٹیڑھے دین کو سیدھا کر لیں گے۔ ان کےذریعے سے اللہ تعالیٰ اندھی آنکھوں کو اور بہرے کانوں کو اور پڑدہ پڑے ہوئے دلوں کو کھول دیں گے۔ حضرتِ وہب بن عتبہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زبور میں حضرتِ
داود علیہ السلام کو یہ وحی فرمائی ، کہ اے داود ! تمھارے بعد عنقریب ایک نبی آئے گا۔ جس کا نام احمد ﷺ یا محمد ﷺ ہو گا وہ سچے اور سردار ہوں گے۔ میں ان سے کبھی ناراض نہیں ہوں گا اور نہ ہی وہ مجھے کبھی ناراض کریں گے، اور
میں نے ان کی اگلی پچھلی تمام لغزشیں کرنے سے پہلے معاف کر دی ہیں اور آپ کی اُمت میری رحمت سے نوازی ہوئی ہے۔میں نے ان کو وہ نوافل عطاکئے جو انبیاء کو عطا کئے اور ان پر وہ چیزیں فرض کیں جو انبیاء اور رسولوں پر فرض کیں
، حتیٰ کہ وہ قیامت کے دن میرے پاس اس حال میں آئیں گے کہ ان کا نور انبیاء کے نور جیسا ہوگا۔اللہ تعالیٰ نے یہاں تک فرمایا دیا کہ اے داور ! میں نے محمد ﷺ کو اور آپ کی امت کو تمام امتوں پر فضیلت دی ہے۔حضرتِ عبداللہ بن
عمرو رضی اللہ عنہُ نے حضرتِ کعب رضی اللہ عنہُ سے فرمایا کہ مجھے حضور ﷺ اور آپ کی اُمت کی صفات بتائیں۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے اللہ تعالیٰ کہ کتاب (تورات) میں ان کی یہ صفات پاتا ہوں کہ احمد ﷺ اور ان کی اُمت
اللہ کی تعریف کرنے والے ہیں۔اچھے برے ہر حال میں الحمد للہ کہیں گے۔ اورچڑھائی پر چڑھتے ہوئے اللہ اکبر کہیں گے اور نیچائی پر اُترتے ہوئے سبحان اللہ کہیں گے، ان کی آذان آسمانی فضامیں گونجے گی۔وہ نماز میں ایسی دھمی آواز
سے اپنے رب سے ہمکلام ہو گے جیسے چٹان پر شہد کی مکھی کی بھنھناہٹ ہوتی ہےاور فرشتوں کی صفوں کی طرح ان کی نماز میں صفیں ہو ں گی اور وہ جب اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے چلیں گے تو مضبوط نیزے لے کر فرشتے ان کے
آگے اور پیچھے ہوں گے۔اور جب وہ اللہ کے راستے میں صف بنا کر کھڑے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان پر ایسے سایہ کئے ہوئے ہوں گے( حضور ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا)جیسے گدھ اپنے گھونسلے پر سایہ کرتے ہیں اور میدانِ
جنگ سے یہ لوگ کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔۔ حضرتِ کعب رضی اللہ عنہُ سے اس جیسی ایک اور روایت بھی منقول ہے، جس کا مضمون یہ ہے کہ ان کی اُمت خوب تعریف کرنے والی ہوگی۔ ہر حال میں الحمد للہ کہیں گے اور ہر چڑھائی پر
چڑھتے ہوئے اللہ اکبر کہیں گے۔( اپنی نمازوں کے اوقات کے لیے) سورج کا خیال رکھیں گے اور پانچوں نمازیں اپنے وقت پر پڑھیں گے اگرچہ کوڑے کرکٹ والی جگہ پر ہوں ۔میانِ کمر پر لنگی باندھٰیں گے، اور وضو میں اپنے اعضاء کو دھوئیں گے ۔
کذافی البدیۃ(ج 2،ص 326
اخرجہ ابو نعیم فی الحلیہ(5ص386)۔واخرج ایضا! با سناد آخر عن کعب مطو لا (ج5ص386)۔
(کتاب۔۔ حیاۃ الصحابہ جلد اوّل صفحہ، 42)

جمعرات، 26 مئی، 2016

سيرت رسول صلی اللہ عليہ وسلم کا ايک خوبصورت واقعہ

اعلان نبوت کے چند روز بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات مکہ کی ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ انہیں ایک گھر میں سے کسی کے رونے کی آواز آئی ۔ آواز میں اتنا درد تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے اختیار اس گھر میں داخل ہوگئے۔ دیکھا تو ایک نوجوان جو کہ حبشہ کا معلوم ہوتا ہے چکی پیس رہا ہے اور زارو قطار رو رہا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ میں ایک غلام ہوں ۔ سارا دن اپنے مالک کی بکریاں چراتا ہوں شام کو تھک کر جب گھر آتا ہوں تو، میرا مالک مجھے گندم کی ایک بوری پیسنے کے لیے دے دیتا ہے جس کو پیسنے میں ساری رات لگ جاتی ہے ۔ میں اپنی قسمت پر رو رہا ہوں کہ میری بھی کیا قسمت ہے میں بھی تو ایک گوشت پوست کا انسان ہوں ۔ میرا جسم بھی آرام مانگتا ہے مجھے بھی نیند ستاتی ہے لیکن میرے مالک کو مجھ پر ذرا بھی ترس نہیں آتا ۔ کیا میرے مقدر میں ساری عمر اس طرح رو رو کے زندگی گزارنا لکھا ہے ؟؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارے مالک سے کہہ کر تمہاری مشقت تو کم نہیں کروا سکتاکیوں کہ وہ میری بات نہیں مانے گا،ہاں میں تمہاری تھوڑی مدد کرسکتا ہوں کہ تم سو جاؤ اور میں تمہاری جگہ پر چکی پیستا ہوں ۔ وہ غلام بہت خوش ہوا اور شکریہ ادا کرکے سو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسکی جگہ چکی پیستے رہے، جب گندم ختم ہوگئی تو آپ اسے جگائے بغیر واپس تشریف لے آئے ۔ دوسرے دن پھر آپ وہاں تشریف لے گئے اور اس غلام کو سلا کر اسکی جگہ چکی پیستے رہے ۔ تیسرے دن بھی یہی ماجرا ہوا کہ آپ اس غلام کی جگہ ساری رات چکی پیستے اور صبح کو خاموشی سے اپنے گھر تشریف لے آتے،، چوتھی رات جب آپ وہاں گئے تو اس غلام نے کہا، اے اللہ کے بندے آپ کون ہو اور میرا اتنا خیال کیوں کر رہے ہو ۔ہم غلاموں سے نہ کسی کو کوئی ڈر ہوتا ہے اور نہ کوئی فائدہ ۔ تو پھر آپ یہ سب کچھ کس لیے کر رہے ہو ؟؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں یہ سب انسانی ہمددری کے تحت کر رہا ہوں اس کے علاوہ مجھے تم سے کوئی غرض نہیں، اس غلام نے کہا کہ آپ کون ہو ،، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں علم ہے کہ مکہ میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے ۔اس غلام نے کہا ہاں میں نے سنا ہے کہ ایک شخص جس کا نام محمد ہے اپنے آپ کو اللہ کا نبی کہتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں وہی محمد ہوں ۔ یہ سن کر اس غلام نے کہا کہ اگر آپ ہی وہ نبی ہیں تو مجھے اپنا کلمہ پڑھائیے کیوں اتنا شفیق اور مہربان کوئی نبی ہی ہوسکتا ہے جو غلاموں کا بھی اس قدر خیال رکھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کلمہ پڑھا کر مسلمان کردیا، پھر دنیا نے دیکھا کہ اس غلام نے تکلیفیں اور مشقتیں برداشت کی لیکن دامن مصطفیٰ نہ چھوڑا ۔ انہیں جان دینا تو گوارا تھا لیکن اتنے شفیق اور مہربان نبی کا ساتھ چھوڑنا گوارہ نہ تھا.. آج دنیا انہیں بلال حبشی رضی اللہ عنہ کے نام سے جانتی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمددری اور محبت نے انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بے لوث غلام بنا کر رہتی دنیا تک مثال بنا دیا ... اس واقعه سے یه سبق ملا که ھر کام الله کی رضا کے لیے کرتے جائیں- کس سے اجر کی امید نا رکھیں- کیوں که اجر الله کی ذات نے دینا ھے- کچھ لوگ کھتے ھیں که اس نے برا کیا، اس لیے تم بھی اس کا کام نا کرو- نھی نھی... الله کے نبی (درود و سلام) کے اخلاق اپنانے کی کوشش کریں- بے شک اس عظیم ذات کے اخلاق تک پھنچنے کا تصور نھی، مگر کوشش ھم کو بھترین امتی بنا سکتی ھے- میرے نبی (درود و سلام) جیسا کوئی نھی آپ (درود و سلام) پر میری، میرے والدین اور میری اولاد کی جان بھی قربان .

منگل، 24 مئی، 2016

اذان کے بارے ميں ايمان افروز انکشاف

 اذان کی روح پرور گونج صرف نماز کیلئے بلاوا یا ہمارے دل اور روح کے سرور کا باعث ہی نہیں ہے بلکہ یہ اسلام کی عظمت کا نشان ہے۔ ہم دن میں پانچ بار اذان کی آواز سنتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ دنیا کے طول و عرض میں پھیلے مسلمان ملکوں میں روزانہ پانچ بار اذان دی جاتی ہے لیکن ہم میں سے اکثر یہ نہیں جانتے کہ دنیا کے مشرقی کنارے سے لے کر مغرب تک دن اور رات کا کوئی لمحہ ایسا نہیں کہ جب اذان کی آواز نہ گونج رہی ہو۔
دنیا کے مضبوط ترین آدمی نے طاقت کا راز بتا دیا اگر آپ دنیا کے نقشے پر نظر ڈالیں تو انتہائی مشرق میں انڈونیشیا واقع ہے، یہاں صبح تقریباً ساڑھے پانچ بجے اذان کا آغاز ہوتا ہے اور جاوا، سماٹرا، بورنیو اور سیبل کے علاقوں میں ہزاروں مﺅذن اذان دیتے ہیں اور یہ سلسلہ مغرب کی طرف بڑھتا جاتا ہے حتیٰ کہ ڈیڑھ گھنٹے بعد جکارتہ میں صبح ہورہی ہوتی ہے اور یہاں اذان کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
ابھی مغربی انڈونیشیا میں اذانیں جاری ہوتی ہیں کہ ملائیشیا میں فجر کا وقت ہوجاتا ہے اور یہاں اذان شروع ہوجاتی ہے۔
ملائیشیا میں اذان فجر کے اختتام سے پہلے ہی برما اور پھر اس کے مغرب میں واقع ملک بنگلا دیش میں اذان فجر شروع ہوجاتی ہے۔
بنگلا دیش کے مغربی حصوں میں اذانِ فجر کے ختم ہونے سے پہلے ہی بھارت کی مساجد میں اللہ اکبر کی صدا بلند ہوجاتی ہے۔
مشرق میں کلکتہ سے شروع ہونے والا سلسلہ جب تک مغرب میں ممبئی تک پہنچتا ہے تو اس وقت تک کشمیر کے شہر سری نگر اور پاکستان کے شمالی شہر سیالکوٹ میں اذانِ فجرکا آغاز ہوچکا ہوتا ہے۔
جب تک اذان کا سفر پاکستان کے شمالی حصے سے جنوب میں کراچی تک پہنچتا ہے تو اس سے پہلے ہی افغانستان اور عمان میں اذان کی آواز گونج اٹھتی ہے اور پھر یہاں اذان فجر کے اختتام سے پہلے عراق اور پھر حجاز مقدس میں فجر کا وقت ہوجاتا ہے۔
مکہ اور مدینہ سے لے کر یمن، متحدہ عرب امارات اور کویت تک اذان کا سلسلہ مسلسل جاری رہتا ہے اور اسی دوران مصر میں اللہ اکبر کی صدا بلند ہوجاتی ہے۔
مصر کے شہر اسکندریا اور لیبیا کے شہر طرابلس میں فجر کے وقت میں ایک گھنٹے کا فرق ہے اور اس دوران سارے افریقہ میں اذان کی آواز گونجتی ہے اور یہ سلسلہ بحراوقیانوس کے کنارے تک جاپہنچتا ہے۔
انڈونیشیا سے شروع ہو کر بحر اوقیانوس کے مشرقی کنارے تک مسلسل اذان کا سلسلہ ساڑھے نوگھنٹے میں پہنچتا ہے اور اس وقت تک انڈونیشیا میں اذان ظہر کی آواز بلند ہوچکی ہوتی ہے اور اب اسی طرح اذان ظہر کی گونج مشرق سے مغرب کی طرف بڑھتی چلی جاتی ہے اور جس وقت مغربی افریقہ میں عشاءکی اذان دی جارہی ہوتی ہے تو مشرقی انڈونیشیا میں پھر سے فجر کی اذان شروع ہوچکی ہوتی ہے۔
بحرالکاہل سے لے کر بحیر اوقیانوس تک اذان کا مسلسل سلسلہ یوں جاری رہتا ہے کہ دن اور رات میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آتا کہ جب سینکڑوں ہزاروں مﺅذن اللہ اکبر کی صدا بلند نہ کررہے ہوں، اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے اور تا قیامت یونہی جاری رہے گا۔

اتوار، 22 مئی، 2016

پیدائش سے سات سو سال قبل ہی نبی کریم ﷺ نے اسے جنت کی بشارت دے دی

طلوع اسلام کے بعد قلیل عرصے میں ہی اسلامی سلطنت کی سرحدیں دور دراز ممالک تک پھیل گئی تھیں لیکن آٹھ صدیوں تک بائزنطینی سلطنت کا مرکز مسلمانوں کے قبضے میں نہ آ سکا۔
اس شہر کی فتح ہر مسلمان جرنیل کا خواب تھی اور اس کی بنیادی وجہ رسولِ خدا ﷺ کی اس کے فاتح کے بارے میں بشارت تھی، جس کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ ’ تم قسطنطنیہ کو فتح کرو گے، اور وہ سپہ سالار سب سے افضل اور اس کی فوج افضل ترین فوج ہو گی‘۔ مسلمان جرنیلوں کی قسطنطنیہ پر ابتک کی جنگی مہمیں کامیاب نہ ہو سکی تھیں اور ہر کوئی یہ جاننے کیلئے بے تاب تھا کہ آخر یہ سعادت کس کے حصے میں آ ئے گی۔
پھر وہ مبارک دن بھی آ گیا کہ جب ترک سلطان مراد دوئم کا ہونہار بیٹا سلطان محمد اڑھائی لاکھ سے زائد فوج اور بھاری توپوں کے ساتھ قسطنطنیہ فتح کرنے کیلئے نکلا۔سلطان نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اس مشہور شہر کو یورپی مدد سے محروم کرنے کیلئے آبنائے باسفورس پر قبضہ کر لیااور یورپی کنارے پر ایک مضبوط قلعہ تعمیر کیا جس میں عام سپاہیوں کے ساتھ سلطان نے اپنے ہاتھوں سے پتھر لگائے۔
اس کے بعد شہر کا گھیراو¿ کر لیا گیا اور کئی روز تک مضبوط فصیلوں پر توپوں کے بھاری گولے برسائے گئے۔ بالآخر صدیوں سے قائم فصیلیں اسلامی لشکر کے سامنے ڈھیر ہو گئیں اور 29 مئی 1453ءبروز جمعتہ الوداع سلطان اپنی فوج کے ساتھ فاتحانہ شان سے شہر میں داخل ہو گیا۔ اس وقت سے لے کر آج تک دنیا کی تاریخ میں انہیں سلطان محمد الفاتح کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
انہوں نے شہر کے مرکزی کلیسا میں جمع ہو جانے والے مقامی عیسائیوں کو عام معافی دے دی اور چرچ کی جگہ ایک عظیم الشان مسجد تعمیر کروائی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ قسطنطنیہ کی فضائیں اذان کی آواز سے گونج اٹھیں۔
سلطان نے اپنے دور میں 300 سے زائد عالیشان مساجد تعمیر کروائیں جن میں سے سلطان محمد مسجد اور ابو ایوب انصاری ؓ مسجد بہت ہی مشہور ہیں۔فتح کے بعد قسطنطنیہ کو اسلامبول ، یعنی اسلام کا گھر، کا نام دیا گیا جو بعد میں استنبول کہلانے لگا۔ تاریخ کی کتابوں میں آ ج بھی سلطان محمد الفاتح کو دنیا کے عظیم ترین فاتحین میں شمار کیا جاتا ہے۔

ہفتہ، 21 مئی، 2016

ایک درزی کا جنازہ

لکھنو بازار میں ایک غریب درزی کی دکان تھی جو ہر جنازے کے لۓ دکان بند کرتے تھے
لوگوں نے کہا کہ اس سے آپ کے کاروبار کا نقصان ہوگا،
کہنے لگا کہ علماء سے سنا ہے کہ جو کسی مسلمان کے جنازے پر جاتا ھے کل اس کے جنازے پر لوگوں کا ہجوم ہوگا
میں غریب ہوں نہ زیادہ لوگ مجھے جانتے ہیں تو میرے جنازے پر کون آۓ گا
اس لیے ایک تو مسلمان کا حق سمجھ کر پڑھتا ہوں اور دوسرا یہ کہ شاید اس سے ہی اللہ پاک راضی ہو جائیں اللہ پاک کی شان دیکھیں کہ 1902ء میں مولانا عبدالحئ لکھنوی صاحب کا انتقال ہوا ریڈیو پر بتلایا گیا، اخبارات میں جنازے کی خبر آگئی جنازے کے وقت لاکھوں کا مجمع تھا. پھر بھی بہت سے لوگ انکا جنازہ پڑھے سے محروم رہ گئے جب جنازہ گاہ میں ان کا جنازہ ختم ہوا تو اسی وقت جنازہ گاہ میں ایک دوسرا جنازہ داخل ہوا. اور اعلان ہوا کہ ایک اور عاجز مسلمان کا بھی جنازہ پڑھ کر جائیں یہ دوسرا جنازہ اس درزی کا تھا مولانا کے جنازے کے سب لوگ ، بڑے بڑے اللہ والے ، علماء کرام سب نے اس درزی کا جنازہ پڑھا اورپہلے جنازے سے جو لوگ رہ گئے تھے وہ بھی اس میں شامل ہوگئے ۔
اس غریب کا جنازہ تو مولانا کے جنازہ سے بھی بڑھ کر نکلا 
اللہ پاک نے اس درزی کی بات پوری کرکے اس کی لاج رکھی
سچ کہا ھے کہ اخلاص بہت بڑی نعمت ھے...!

اب وہ نماز کبھی نہیں چھوڑےگی

میڈم مجھے ایک بات پوچھنی ہے
اس روز وہ کلاس کے بعد میڈم مصباح کے پاس چلی گئی تھی
جی ضرور پوچھیئے
میڈم بہت توجہ کے ساتھ اس کی طرف پلٹی تھیں
وہ میم
مجھ سے نماز نہیں پڑھی جاتی
تو خیر ہے نا
ہاں کیوں نہیں
خیر ہے
اِٹس اوکے اگر آپ نہیں پڑھ سکتیں تو
محمل کو لگا منوں بوجھ اس کے کاندھوں سے اتر گیا ہو
وہ ایک دم قید سے آزاد ہوئی تھی
وہی تو میم
میں باقی نیکیاں کر لوں
قرآن پڑھ لوں
ٹھیک ہے نا
نماز پڑھنا بہت ضروری تو نہیں ہے
نہیں اتنا ضروری تو نہیں ہے
اگر آپ نہیں پڑھنا چاہتیں تو نہ پڑھیں
میم کوئی فرق تو نہیں پڑے گا نا
قطعاً فرق نہیں پڑے گا
یہ بالکل آپ کی اپنی مرضی پہ ہے
اوہ اوکے
وہ بے حد آسودہ سی مسکرائی
مگر میڈم کی بات ابھی ختم نہیں ہوئی تھی
یقین کریں محمل
کوئی فرق نہیں پڑے گا اسے
آپ بیشک نماز نہ پڑھیں
بیشک سجدہ نہ کریں
جو ہستیاں اس کے پاس ہیں
وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتیں اگر آپ کر لیں
اسے کیا فرق پڑے گا
اِس آسمان کا بالشت بھر حصہ بھی خالی نہیں جہاں کوئی فرشتہ سجدہ نہ کر رہا ہو
اور فرشتہ جانتی ہیں کتنا بڑا ہو سکتا ہے
جب اس پہاڑی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کے پکارنے پہ پلٹ کر دیکھا تھا
تو جبرائیل علیہ السلام کا قد زمین سے آسمان تک تھا
اور ان کے پیچھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان نظر نہیں آ رہا تھا
ایسے ہوتے ہیں فرشتے
70 ہزار فرشتے خانہ کعبہ کا روز طواف کرتے ہیں
یہ تعداد بہت عام سی لگتی ہے
مگر جانتی ہیں
یہ جو 70 ہزار فرشتے روز طواف کرتے ہیں ان کی باری پھر قیامت تک نہیں آئے گی
اس رب کے پاس اتنی لاتعداد ہستیاں ہیں عبادت کرنے کے لئے
آپ نماز نہ بھی پڑھیں تو اسے کیا فرق پڑے گا
میڈم مصباح جا چکی تھیں
اور وہ دھواں دھواں چہرے کے ساتھ کتابیں سینے سے لگائے ساکت کھڑی تھی
اس کو لگا
اب وہ نماز کبھی نہیں چھوڑ سکے گی

بدھ، 18 مئی، 2016

Why Don’t You Have A Boyfriend

Why Don’t You Have A Boyfriend ?
She replied with confidence : you tell me : why would I have a bf ?!
I guess you have no answer for my question, but I have answers for yours :
First, I am a believer, I can’t do what displease my Creator, HE ordered me not to to take a bf so I should obey HIM.
Allah says in Qur’an: “nor those who take [secret] lovers. “(surat Al-Nisa-25)
Second, I am a daughter of a man who raised me to be a chaste woman, I am a sister of a man who is proud of my purity, so I don’t want to disappoint them, and most of all I don’t want to disappoint a third man who is my future husband and the father of my children in shaa Allah, because I am preserving myself to him only
My mom raised me to be a righteous woman so that I deserve a righteous man she never raised me to be a toy in any boy’s hand, but she raised me to complete the Deen of a pious man.
Also, I am not an easy girl who would be impressed with sweet love words, but I am a proud Muslimah who is just like a pearl in its shell no one can touch it but a brave man who would value it and cherish its beauty…
Dear Muslimahs…Know your worth! and Be that One In Million who love to have the love of Their Lord than the love of a boyfriend!!!

منگل، 17 مئی، 2016

نماز کی حکمتيں واشنگٹن کےايک ڈاکٹر کی زبانی

ایک دفعہ واشنگٹن میں ایک ڈاکٹر سے ملاقات ہوئی وہ کہتا تھا کہ میرا دل کرتا ہے کہ سارے ملک میں نماز کو لاگو کر دوں۔میں نے پوچھا !
کیوں؟
کہنے لگا :
اس کے اندر اتنی حکمتیں ہیں کہ کوئی حد نہیں ہے ۔ وہ جلد کا اسپیشلسٹ تھا۔ کہنے لگا اس کی حکمت آپ تو (انجینیئر ہیں) سمجھ لیں گے۔
میں نے کہا:
اچھا جی بتائیں۔
کہنے لگا :
کہ اگر انسان کے جسم کو مادی نظرسے دیکھا جائے۔ تو انسان کا دل پمپ کی مانند اس کا ان پٹ بھی ہے اور آؤٹ پٹ بھی۔ سارے جسم میں تازہ خون جا رہا ہوتا ہے اور دوسرا واپس آ رہا ہوتا ہے۔اس نے کہا:
کہ جب انسان بیٹھا ہوتا ہے یا کھڑا ہوتا ہے تو جسم کے جو حصے نیچے ہوتے ہیں ان میں پریشر نسبتا زیادہ ہوتا ہے اور جو حصے اوپر ہوتے ہیں ان میں پریشر نسبتا کم ہوتا ہے۔
مثلا تین منزلہ عمارت ہو اور نیچے پمپ لگا ہوا ہو تو نیچے پانی زیادہ ہو گا اور دوسری منزل پر بھی کچھ پانی پہنچ جائے گا جبکہ تیسری منزل پر تو بلکل نہیں پہنچے گا۔
حالانکہ وہ ہی پمپ ہے ۔
لیکن نیچے پورا پانی دے رہا ہے اس سے اوپر والی منزل میں کچھ پانی دے رہا ہے ۔
اور سب سے اوپر والی منزل پر تو بلکل پانی نہیں جا رہا۔
اس مثال کو اگر سامنے رکھتے ہوئے سوچیں تو انسان کا دل خون کو پمپ کر رہا ہوتا ہے اور یہ خون نیچے کے اعضاء میں بلکل پہنچ رہا ہوتا ہے ۔
لیکن اوپر کے اعضاء میں اتنا نہیں پہنچ رہا ہوتا۔
جب کوئی ایسی صورت آتی ہے کہ انسان کا سر نیچے ہوتا ہے اور دل اوپر ہوتا ہے تو خون سر کے اندر بھی اچھی طرح پہنچ جاتا ہے ۔
مثلا جب انسان نماز کے سجدے میں جاتا ہےتو محسوس ہوتا ہے جیسے گویا پورے جسم میں خون پھر گیا ہے۔
آدمی سجدہ تھوڑا لمبا کر لے تو محسوس ہوتا ہے کہ چہرے کی جو باریک باریک شریانیں ہیں ان میں بھی خون پہنچ گیا ہے۔
تو وہ کہنے لگے کہ عام طور پر انسان بیٹھا، لیٹا یا کھڑا ہوتا ہے۔
بیٹھنے ، کھڑے ہونے اور لیٹنے سے انسان کا دل نیچے ہوتا ہےجبکہ سر اوپر ہوتا ہے۔
ایک ہی صورت ایسی ہے کہ نماز میں جب انسان سجدے میں جاتا ہے تو اس کا دل اوپر ہوتا ہےاور سر نیچے ہوتا ہے۔
لہذا خون اچھی طرح چہرے کی جلد میں پہنچ جاتا ہے۔
اس کی یہ باتیں سن کر میرے منہ سے بے اختیار سبحان اللہ نکلا اور میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے مجھے کتنا پیارا دین دیا ہے جس کے ایک ایک عمل کی تعریف قابل ذکر ہے.

جمعہ، 13 مئی، 2016

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اور عجوہ کهجور

حضرت سلمان فارسی نے کچه عیسائیوں اور اپنے بزرگوں سے سن رکها تها کہ "کهجوروں والی زمین"
پر ایک نبی آئینگے جو.....
تحفہ (هبہ) قبول کرلیا کرینگے......
صدقہ نہیں لیا کرینگے.......
انکے جسم اطہر پر "مہر نبوت" ہوگی.پس جب تم انکو دیکهہ لو تو ان پر ایمان لے آنا.
نبی اقدس جب مکہ سے مدینہ ہجرت فرماتے ہیں تو حضرت سلمان آپکی خدمت میں کچهہ کهجوروں کا تحفہ لے جاتے ہیں جو کہ رسول اللہ قبول فرماتے ہیں.....
اگلے دن آپ کچهہ کهجوریں لے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ صدقے کی کهجوریں ہیں....
رسول الله اسے اپنے لئے قبول نہیں کرتے اور مستحق مسلمانوں میں تقسیم کروادیتے ہیں......
کچه دن تک حضرت سلمان رسول اللہ کے پاس نہیں جاتے ہیں..
آقا خود آپکو بلواتے ہیں اور جسم اطہر سے اپنا کرتا اتار کر کہتے ہیں سلمان...
مہر نبوت تو دیکهتے جائو.......
حضرت سلمان جنکی عمر اسوقت سو برس تهی کہتے ہیں کہ یارسول اللہ مجهے کلمہ پڑهائیں میری عمر اکبر ہے...
ایسا نہ ہو کہ میں کفر پہ جان دے دوں...
آقا انہیں کلمہ پڑهاکر مسلمان کرتے ہیں.
حضرت سلمان ایک غلام تهے انکے مالک نے انکے اسلام لانے پر ظلم.وستم کی انتہا کردی...
چنانچہ رسول اللہ نے انکو قیمت دے کر آزاد کروانا چاہا...
مالک نے کہا مرغی کے ایک انڈہ کا ہم وزن سونا دو جو کہ 3کلو کا ہو...
سب مسلمانوں نے ملکر سونا جمع کیا..
حضرت عثمان غنی نے یہاں بهی اپنی سخاوت کا مظاہرہ کیا اور سونے کی مقدار پوری ہوئ.
مالک نے مزید مطالبہ کیا کہ کهجور کے 300پیڑ صبح کو لگائیں..
پر شرط یہ ہے کہ وہ پیڑ شام کو پهل دیں...
بظاہر یہ شرط ناممکن نظر آتی تهی...
مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا مانگ کر کهجور کے پیڑ لگائے...
اور شام تک پهل بهی آگیا...
حضرت سلمان فارسی آزاد ہوگئے...
اور اللہ نے رہتی دنیا تک اس پهل "عجوہ کهجور"میں بہت سی بیماریوں سے شفاء رکهدی....
مدینہ منورہ میں آج بهی وہ باغات "حضرت سلمان فارسی کے باغات" کے نام سے موجود ہیں.

منگل، 10 مئی، 2016

رحمتُ للعالمین ﷺ امن عالم کے سب سے بڑے علم بردار

آپ کی بنیادی تعلیم ہی یہ تھی کہ انسان کا احترام اسکے انسان ہونیکی حیثیت سےکیا جائے چاہے اسکا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔
اسلام سے پہلے سرزمین عرب کی وہ حالت تھی کہ یہاں کوئی مضبوط و مستحکم مرکزی حکومت نہیں تھی، بلکہ یہ خطہ ظالم اور جاہل قبیلوں کے ہاتھوں برباد ہورہا تھا۔
بے شمار اخلاقی اور سماجی برائیاں اس معاشرے کو چاٹ کر ختم کررہی تھیں۔ سماجی اور معاشرتی نظام مکمل طور پر درہم برہم ہوچکا تھا اور انسان اپنے اصل اور بنیادی مقام سے بے خبر، غفلت میں پڑا ہوا تھا۔ بچیوں کو معاشرے کے لیے باعث شرم سمجھا جاتا تھا، اس لیے انہیں پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کردیا جاتا تھا۔
ظلم و ستم کے اس عالم میں جب امید کی کوئی کرن باقی نہیں رہی تو پھر خالق کائنات کو اس دکھی انسانیت پر ترس آیا، جس کے نتیجے میں غار حرا سے روشنی کی ایک ایسی کرن پھوٹی جو جلد ہی ایک منور آفتاب کی شکل اختیار کرگئی۔ پھر توحید اور ایمان کی اس روشنی سے سارا عالم منور ہوگیا۔
یہ شمع رسالت بنو ہاشم کے گھرانے میں روشن ہوئی تھی اور حامل شمع ؐ نے ایسا توحیدی انقلاب برپا کیا کہ آج بھی تمام عالم اس سے فیض یاب ہورہا ہے۔
نبی اکرم ﷺ کی پاکیزہ ذات سے اور آپؐ کی عظیم سیرت پاک سے بنی نوع انسان کو ایک علمی ضابطۂ حیات اور قرآن کریم فرقان حمید کی شکل میں ایک تحریری آئین میسر آگیا جس پر عمل پیرا ہوکر انسانیت کو باوقار مقام ملا۔ راہ بر انسانیت ﷺ کی حیات مبارکہ ہمارے سامنے ایک کھلی ہوئی کتاب ہے۔
آپؐ کا ہر عمل حکم ربی کی تفسیر ہے۔سید المرسلینﷺ غریبوں کے ہم درد اور یتیموں کے والی تھے، قول کے پکے اور وعدے کے سچے تھے۔ صداقت و امانت آپؐ کا ابدی جوہر تھا۔ رسول کریم ؐ تمام انبیائے کرام کی خوبیوں کا مجموعہ تھے۔
آپؐ کی شخصیت صبر و شکر کا حسین امتزاج ہے۔ آپؐ نے عالمی یک جہتی، یگانگت اور بھائی چارے کا عظیم درس دیا۔نبی کریمﷺ کی تعلیم قرآن کریم سے کی گئی اور آپؐ کا خلق قرآن کریم ہے۔ آپ ﷺ کی آمد نے عرب میں سرتاپا  انقلاب برپا کردیا۔
آپؐ نے پوری دنیا کے سامنے مکمل شریعت کو پیش کرکے دنیا کے ہر گوشے کو ترانۂ توحید سے معمور کردیا۔ آپؐ نے گم راہوں کو سیدھا اور سچا راستہ بتایا، بندوں کا رشتہ خدا سے جوڑا، اوہام پرستی کو مٹایا، دنیا کو محبت اور مساوات کی تعلیم دی۔ بلاشبہہ یہ سب آپؐ ہی کی ذات بابرکت کی دین تھی۔
حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے ارشاد فرمایا:’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے‘‘ ۔
اسلام عالم گیر امن کا خواہاں ہے۔ اس حوالے سے قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’جس نے کسی جان کا قتل کیا یا زمین میں فساد برپا کیا گویا اس نے ساری انسانیت کو قتل کردیا اور جس نے ایک جان کو بچایا، اس نے ساری انسانیت کو بچالیا۔‘‘پیغمبر اسلام ﷺ نہ صرف امن کے علم بردار تھے بلکہ آپؐ کی تعلیمات کا مقصد ملت اور معاشرے میں اتحاد، اخوت، باہمی اشتراک اور تعاون کا قیام تھا۔
آپؐ کی بنیادی تعلیم ہی یہ تھی کہ انسان کا احترام اس کے انسان ہونے کی حیثیت سے کیا جائے، چاہے اس کا تعلق کسی مذہب و ملت سے ہو۔ آپ ﷺ کی بعثت سے قبل لوگ ایک دوسرے کے دشمن تھے، انسانوں نے ایک دوسرے کی جان و مال اور آبرو کو پامال کر رکھا تھا۔ رسالت مآب ﷺ نے تمام انسانی برادری کو پرامن بقائے باہمی کی دعوت دی، دوسرے مذاہب کے ساتھ بھی آپؐ نے پرامن روابط استوار کیے۔
اسلام ایک پُرامن مذہب ہے، اس میں فتنہ وفساد، سختی، طنز و حقارت، دہشت گردی، ناانصافی کو ختم کرنے کے لیے سب سے پہلی اور بنیادی ہدایت یہ ہے کہ ہر طرح کے ظلم و ستم کا مکمل خاتمہ کیا جائے اور ہر ایک کے ساتھ عدل و انصاف برتا جائے۔ شفقت و محبت، پیار و نرمی اور ایک دوسرے سے حسن سلوک کا معاملہ روا رکھا جائے۔
قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:’’اے رسولؐ! یہ اﷲ کی بڑی رحمت ہے کہ آپؐ ان لوگوں کے لیے بڑے نرم دل واقع ہوئے ہیں ورنہ اگر کہیں آپؐ سخت مزاج ہوتے تو یہ سب آپؐ کے گرد سے چھٹ جاتے۔
‘‘ (آل عمران)
اس آیت مبارکہ میں واضح طور پر یہ حقیقت باور کرائی گئی ہے کہ اسلام کے وسیع پیمانے پر پھیلنے کا سبب پیغمبر اسلام ﷺ کی نرم دلی اور رواداری تھی۔ عرب کے خوں ریز اور خوں آشام خطے میں جہاں طویل مدت سے تلواریں لہو برسا رہی تھیں، آپؐ کی تشریف آوری کی ساتھ ہی صدیوں کے دشمن آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔ عرب میں رونما ہونے والے اس عظیم انقلاب کا راز آپﷺکی تعلیمات ہی تھیں، جن پر عمل کرکے اہل ایمان کے دل باہمی محبت کے جذبات سے لبریز ہوگئے۔
آپؐ نے مل جل کر رہنے کے لیے پیار و محبت، شفقت اور ایک دوسرے کے ساتھ غم خواری کو فروغ دینے کی تلقین فرمائی۔ آپؐ نے مذہب کی بنیاد پر انسانی حقوق میں کبھی تفریق اور امتیاز روا نہیں رکھا۔
آپؐ کا دین بلالحاظ مذہب و عقائد تمام انسانوں کو بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کی ضمانت دیتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کو نسل انسانی کی ہدایت کا سرچشمہ بنایا جسے اپناکر انسان نے عزت و عظمت سے زندگی بسر کرنا سیکھ لیا۔
حبیب کبریا ﷺ کی عظیم ہستی اپنی ذات و صفات کے اعتبار سے اﷲ تبارک تعالیٰ کی بہترین تخلیق ہے، آپؐ کو اﷲ تعالیٰ نے اپنی خاص رحمت سے نوازا، آپؐ کو سب سے اعلیٰ اعزاز یہ دیا کہ آپؐ کے ذکر کو اپنا ذکر قرار دیا اور آپؐ کے نام کو اپنے نام کے ساتھ شامل کرلیا۔
سورۂ احزاب میں ارشاد ہے:’’اﷲ اور اس کے فرشتے محمدؐ پر درود و سلام بھیجتے ہیں، اس لیے اے ایمان والو! تم بھی محمدؐ پر درود بھیجا کرو۔‘‘اﷲ تعالیٰ نے نہ صرف آپؐ کو عزت و احترام سے سرفراز کیا بلکہ تکریم نبوی ﷺ کے خصوصی احکام بھی جاری کردیے اور ان کی ہر معاملے میں توقیر و تعظیم کا حکم دیا۔
ارشاد فرمایا:’’مومنو! پیغمبر کے بلانے کو ایسا خیال نہ کرنا جیسا تم آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو۔ بے شک! اﷲ کو وہ لوگ معلوم ہیں جو تم سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں۔‘‘ (النور)
آپؐ کی رائے کو سب سے مقدم سمجھا گیا اور اس کا احترام کرنے کا حکم بھی دیا گیا، کیوں کہ آپؐ کی رائے قرآن کے مطابق تھی اور زندگی کو سنوارنے کے لیے آپؐ کے احکام پر عمل پیرا ہونا لازمی تھا۔ گم راہی سے وہی لوگ نکل سکتے تھے جو آپؐ کی نصیحت پر عمل کرتے۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے’’اے محمدﷺ ہم نے تم کو سچائی کے ساتھ خوش خبری سنانے والا، ڈرانے والا بنا کر بھیجا۔‘‘ (البقرہ)حضور سرور عالم ﷺ کی آمد پوری نسل انسانی پر رب کریم کا احسان ہے اور آپؐ کی تعلیمات پوری دنیا کے لیے باعث رحمت ہیں۔

ہفتہ، 7 مئی، 2016

’’بیٹیاں رحمتِ اللہ ہیں‘‘

ایک شخص کے ہاں صرف بیٹیاں تھیں ہر مرتبہ اس کو امید ہوتی کہ اب تو بیٹا پیدا ہوگا مگر ہر بار بیٹی ہی پیدا ہوتی اس طرح اس کے ہاں یکے بعد دیگرے چھ بیٹیاں ہوگئیں۔ اس کی بیوی کے ہاں پھر ولادت متوقع تھی وہ ڈر رہا تھا کہ کہیں پھر لڑکی پیدا نہ ہو جائے شیطان نے اس کو بہکایا چناںچہ اس نے ارداہ کرلیا کہ اب بھی لڑکی پیدا ہوئی تو وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے گا۔ اس کی کج فہمی پر غور کریں بھلا اس میں بیوی کا کیا قصور۔
رات کو سویا تو اس نے عجیب و غریب خواب دیکھا اس نے دیکھا کہ قیامت برپا ہو چکی ہے اس کے گناہ بہت زیادہ ہیں جن کے سبب اس پر جہنم واجب ہوچکی ہے۔ لہٰذا فرشتوں نے اس کو پکڑا اور جہنم کی طرف لےگئے پہلے دروازے پر گئے۔ تو دیکھا کہ اس کی ایک بیٹی وہاں کھڑی تھی جس نے اسے جہنم میں جانے سے روک دیا۔ فرشتے اسے لے کر دوسرے دروازے پر چلے گئے وہاں اس کی دوسری بیٹی کھڑی تھی جو اس کے لئے آڑ بن گئی۔ اب وہ تیسرے دروازے پر اسے لے گئے وہاں تیسری لڑکی کھڑی تھی جو رکاو ٹ بن گئی۔ اس طرح فرشتے جس دروازے پر اس کو لے کر جاتے وہاں اس کی ایک بیٹی کھڑی ہوتی جو اس کا دفاع کرتی اور جہنم میں جانے سے روک دیتی۔ غرض یہ کہ فرشتے اسے جہنم کے چھ دروازوں پر لے کر گئے مگر ہر دروازے پر اس کی کوئی نہ کوئی بیٹی رکاوٹ بنتی چلی گئی۔ اب ساتواں دروازہ باقی تھا فرشتے اس کو لے کر اس دروازے کی طرف چل دیئے اس پر گھبراہٹ طاری ہوئی کہ اس دروازے پر میرے لئے رکاوٹ کون بنے گا اسے معلوم ہوگیا کہ جو نیت اس نے کی تھی غلط تھی وہ شیطان کے بہکاوے میں آگیا تھا۔ انتہائی پریشانی اور خوف ودہشت کے عالم میں اس کی آنکھ کھل چکی تھی اور اس نے رب العزت کے حضور اپنے ہاتھوں کو بلند کیا اور دعا کی۔
’’اللھم ارزقنا السابعۃ‘‘
اے اللہ مجھے ساتویں بیٹی عطا فرما۔
اس لئے جن لوگوں کا قضا و قدر پر ایمان ہے انہیں لڑکیوں کی پیدائش پر رنجیدہ خاطر ہونے کے بجائے خوش ہونا چاہیئے۔ ایمان کی کمزوری کے سبب جن بد عقیدہ لوگوں کا یہ تصور بن چکا ہے کہ لڑکیوں کی پیدائش کا سبب ان کی بیویاں ہیں یہ سرا سر غلط ہے اس میں بیویوں کا یا خود ان کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ میاں بیوی تو صرف ایک ذریعہ ہیں پیدا کرنے والی ہستی تو صرف اللہ وحدہ لاشریک ہے وہی جس کو چاہتا ہے لڑکا دیتا ہے جس کو چاہتا ہے لڑکی دیتا ہے جس کو چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملا کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بانجھ بنا دیتا ہے ۔ ایسی صورت میں ہر مسلمان پر واجب ہے اللہ تعالی کی قضا و قدر پر راضی ہو۔
اللہ تعالی نے سورہ شوری میں ارشاد فرمایا ہے؛
لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ (49) أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ (50)
(ترجمہ)
آسمانوں کی اور زمین کی سلطنت اللہ تعالی ہی کے لئے ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے یا پھر لڑکے اور لڑکیاں ملا جلا کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے وہ بڑے علم والا اور کامل قدرت والا ہے۔
بیٹیاں اللہ کی رحمت ہیں اور ان جیسا قیمتی کوئی نہیں ہو سکتا۔ اللہ پاک ہمیں بیٹیوں سے محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

بدھ، 4 مئی، 2016

میں اور میرا رب

 میں نے کہا: تھک چکا ہوں.
جواب آیا:
خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہوں (سورہ زمر/آیت 53)
میں نے کہا: کوئی بھی میرے دل کی بات نہیں جانتا.
جواب آیا:
خدا انسان اور اس کے قلب کے بیچ حائل ہے (سورہ انفال/آیت 24)
میں نے کہا: تیرے سوا میرا کوئی نہیں.
جواب آیا: 
ہم گردن کی رگوں سے بھی انسان کے قریب تر ہیں ـ (سورہ ق/آیت 16)
میں نے کہا: لیکن لگتا ہے تو مجھے بھول ہی گیا ہے۔
 جواب آیا: 
مجھے یاد کرتے رہو میں بھی تمہیں یاد رکھوں گا ـ (سورہ بقرہ/آیت 152)
میں نے کہا: کب تک صبر کرنا پڑے گا مجھے۔
 جواب آیا: 
تم کیا جانو شاید وعدے کا وقت قریب ہی ہوـ (سورہ احزاب/آیت 63)
میں نے کہا: تو بہت بڑا ہے اور تیری قربت مجھ نہایت چھوٹے کے لئے بہت ہی دور ہے، میں اس وقت تک کیا کروں۔
 جواب آیا: 
تم وہی کرو جو میں کہتا ہو اور صبر کرو تا کہ خدا خود ہی حکم جاری کردےـ (سورہ یونس/آیت 109)
میں نے کہا: تو بہت ہی پرسکون ہے! تو خدا ہے اور تیرا صبر و تحمل بھی خدائی ہے جبکہ میں تیرا بندہ ہوں اور میرے صبر کا ظرف بہت ہی چھوٹا ہے. تو ایک اشارہ کردے کام تمام ہے.
جواب آیا: 
شاید تم کسی چیز کو پسند کرو اور تمہاری مصلحت اس میں نہ ہو ـ (سورہ بقرہ/آیت 216)
میں نے کہا: میں تیرا کمزور اور ذلیل بندہ ہوں؛- تو کیونکر مجھے اس حال میں چھوڑ سکتا ہے۔
 جواب آیا: 
خدا انسانون پر بہت ہی مہربان اور رحم کرنے والا ہےـ (سورہ بقرہ/آیت 143)
میں نے کہا: گھٹن کا شکار ہوں
 جواب آیا: 
لوگ کن چیزوں پر دل خوش رکھتے ہیں ان سے کہہ دو کہ خدا کے فضل و رحمت پر خوش رہا کریں. (سورہ یونس – آیت 58)
میں نے کہا: چلئے میں مزید پروا نہیں کرتا ان مسائل کی! توکلتُ علی الله.
جواب آیا:
خدا توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے. (سورہ آل عمران/آیت 159)
میں نے کہا: بندے ہیں تیرے اے مالک!
لیکن اس بار جواب آیا کہ: خیال رکھنا۔
 بعض لوگ صرف زبان سے خدا کی بندگی کرتے ہیں، اگر انہیں کوئی خیر پہنچے تو امن و سکون محسوس کرتے ہیں اور اگر آزمائش میں مبتلا کئے جائیں تو روگردان ہوجاتے ہیں. (سورہ حج آیت ۱۱) میرا رب ،،،،،
 میں نے کہا: تھک چکا ہوں.
جواب آیا:
خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہوں (سورہ زمر/آیت 53)
میں نے کہا: کوئی بھی میرے دل کی بات نہیں جانتا.
جواب آیا:
خدا انسان اور اس کے قلب کے بیچ حائل ہے (سورہ انفال/آیت 24)
میں نے کہا: تیرے سوا میرا کوئی نہیں.
جواب آیا: 
ہم گردن کی رگوں سے بھی انسان کے قریب تر ہیں ـ (سورہ ق/آیت 16)
میں نے کہا: لیکن لگتا ہے تو مجھے بھول ہی گیا ہے۔
 جواب آیا: 
مجھے یاد کرتے رہو میں بھی تمہیں یاد رکھوں گا ـ (سورہ بقرہ/آیت 152)
میں نے کہا: کب تک صبر کرنا پڑے گا مجھے۔
 جواب آیا: 
تم کیا جانو شاید وعدے کا وقت قریب ہی ہوـ (سورہ احزاب/آیت 63)
میں نے کہا: تو بہت بڑا ہے اور تیری قربت مجھ نہایت چھوٹے کے لئے بہت ہی دور ہے، میں اس وقت تک کیا کروں۔
 جواب آیا: 
تم وہی کرو جو میں کہتا ہو اور صبر کرو تا کہ خدا خود ہی حکم جاری کردےـ (سورہ یونس/آیت 109)
میں نے کہا: تو بہت ہی پرسکون ہے! تو خدا ہے اور تیرا صبر و تحمل بھی خدائی ہے جبکہ میں تیرا بندہ ہوں اور میرے صبر کا ظرف بہت ہی چھوٹا ہے. تو ایک اشارہ کردے کام تمام ہے.
جواب آیا: 
شاید تم کسی چیز کو پسند کرو اور تمہاری مصلحت اس میں نہ ہو ـ (سورہ بقرہ/آیت 216)
میں نے کہا: میں تیرا کمزور اور ذلیل بندہ ہوں؛- تو کیونکر مجھے اس حال میں چھوڑ سکتا ہے۔
 جواب آیا: 
خدا انسانون پر بہت ہی مہربان اور رحم کرنے والا ہےـ (سورہ بقرہ/آیت 143)
میں نے کہا: گھٹن کا شکار ہوں
 جواب آیا: 
لوگ کن چیزوں پر دل خوش رکھتے ہیں ان سے کہہ دو کہ خدا کے فضل و رحمت پر خوش رہا کریں. (سورہ یونس – آیت 58)
میں نے کہا: چلئے میں مزید پروا نہیں کرتا ان مسائل کی! توکلتُ علی الله.
جواب آیا:
خدا توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے. (سورہ آل عمران/آیت 159)
میں نے کہا: بندے ہیں تیرے اے مالک!
لیکن اس بار جواب آیا کہ: خیال رکھنا۔
 بعض لوگ صرف زبان سے خدا کی بندگی کرتے ہیں، اگر انہیں کوئی خیر پہنچے تو امن و سکون محسوس کرتے ہیں اور اگر آزمائش میں مبتلا کئے جائیں تو روگردان ہوجاتے ہیں. (سورہ حج آیت ۱۱)

جمعرات، 19 نومبر، 2015

نبی اکرم ﷺ سے منسوب 9تلواروں میں سے 8ترکی میں محفوظ

استنبول: پیغمبر اسلامﷺ کے پاس نو تلواریں تھیں جن میں سے دو انہیں وراثت میں ملیں اور تین مال غنیمت میں حاصل ہوئیں جبکہ عضب انہیں تحفے میں ملی تھیں ۔حضرت محمد ﷺ سے منسوب نو میں سے آٹھ تلواریں ترکی کے شہر استنبول میں واقع توپی کاپی عجائب گھر میں محفوظ ہیں جبکہ ایک مصر کی جامع مسجد میں موجود ہے ۔ پاکستانی فوج نے شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کا نام ضرب عضب بھی آنحضورﷺ کی ایک تلوار کے نام پر رکھا گیا ہے ۔ العضب کے معنی ، تیر چلنے والا اور تیز دھار تلوار ہیں۔ پیغمبر اسلام کو یہ تلوار صحابی سعدؓ بن عبادہ الانصاری نے غزوہ احد سے قبل تحفے میں دی تھی۔آپ نے یہ تلوار احد میں ابود جانہؓ الانصاری کو لڑنے کے لئے دی ۔ یہ تلوار اب مصری شہر قاہرہ کی مشہور جامع مسجد الحسین بن علی میں محفوظ ہے ۔ پیغمبر اسلام کے زیر اہتمام رہنے والی تلواروں میں سے ایک تلوار کا نام الم اثور ہے جس کو ماثو االفجر بھی کہتے ہیں اور یہ پیغمبر اسلام کو اپنے والد سے وراثت میں ملی تھی۔ ایک اور تلوار کا نام الرسوب ہے جس کے معنی ہیں اندر گھس جانے والی تلوار۔ اس کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہ نسل در نسل منتقل ہوتے پیغمبر اسلام تک پہنچی ۔ اس تلوار پر سنہری دائرے بنے ہوئے ہیں جن پر امام جعفر الصادق کا نام کندہ ہے ۔ یہ تلوار ترکی کے توپی کاپی میوزیم میں محفوظ ہے ۔
ایک تلوار کا نام البتار ہے جس کا معنی السیف القاطع یعنی کاٹ دینے والی تلوار ہے اور اسے سیف الانبیاءیعنی نبیوں کی تلوار بھی کہا جاتا ہے اوراسی کے بارے کہاجاتاہے کہ حضرت عیسیٰ اسی تلوار سے دجال کا مقابلہ کریں گے۔ایک تلوار کا نام الحتف ہے جس کے معنی ہیں مارنا ، حتف السیف یعنی مار دینے والی تلوار۔ایک تلوار کا نام القلعی ہے۔ خوبصور ت میان والی یہ تلوار بھی البتار اور الحتف کی طرح پیغمبراسلام کو مدینہ کے قبیلے بنو قینقاع سے مال غنیمت میں حاصل ہوئی تھی۔ایک الذوالفقار ہے ،اس تلوار کی شہرت دودھاری ہونے اور اس پر بنے ہوئے دو نوک والے نقش ونگارکی وجہ سے ہے ۔ یہ تلوار رویات کے مطابق جنگ بدر میں مال غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی تاہم بعد میں پیغمبراسلام نے اسے حضرت علی ابن ابی طالب کو دے دیا۔ ایک اور تلوار المخذم ہے جس کے معنی کاٹ دینے والی ہے۔ ایک اور تلوار القضیب ہے، قضیب کے معنی ہیں کٹی ہوئی شاخ یا بغیر سھائی ہوئی اونٹنی، یہ تلوار پتلی اور بہت کم چوڑائی والی ہے اور اس تلوار پر چاندی سے لا الہ الا الہ محمد رسول اللہ ، محمد بن عبداللہ عبدالمطلب کے الفاظ کنندہ ہیں۔واضح رہے کہ ان تلواروں کی کم بیش تمام تصویریں محمد حسن محمد التہامی کی لی ہوئی ہیں جو انہوں نے 1929ءمیں اپنے اس مقالے کے لئے کھینچی تھیں جو انہوں نے پیغمبر اسلام کی تلواروں اور سامان حرب کےبارے ميں لکها تها.

پیر، 28 ستمبر، 2015

سچا واقعہ:تحریر آصف عثمان


دو نوجوان عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسکی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں “یا عمر یہ ہے وہ شخص”

عمر رضی اللہ عنہ ان سے پوچھتے ہیں " کیا کیا ہے اس شخص نے ؟"

"یا امیر المؤمنین ۔ اس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے"

عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں " کیا کہہ رہے ہو ۔ اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے ؟"

عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں " کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے ؟"

وہ شخص کہتا ہے " ہاں امیر المؤمنین ۔ مجھ سے قتل ہو گیا ہے انکا باپ"

عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں " کس طرح قتل ہوا ہے ؟"

وہ شخص کہتا ہے " یا عمر ۔ انکا باپ اپنے اُونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا ۔ میں نے منع کیا ۔ باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا "

عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں " پھر تو قصاص دینا پڑے گا ۔ موت ہے اسکی سزا "

نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں ۔ نہ ہی اس شخص سے اسکے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے، نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدر شریف خاندان سے ہے، نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں، معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے ؟ ان سب باتوں سے بھلا عمر رضی اللہ عنہ کو مطلب ہی کیا ۔ کیونکہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمر رضی اللہ عنہ پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ کو روک سکتا ہے۔ حتٰی کہ سامنے عمر کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو ۔ قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔

وہ شخص کہتا ہے "اے امیر المؤمنین ۔ اُس کے نام پر جس کے حُکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں مجھے صحرا میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجئے تاکہ میں ان کو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے ۔ میں اسکے بعد واپس آ جاؤں گا"

عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں "کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحرا میں جا کر واپس بھی آ جائے گا؟"

مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اسکا نام تک بھی جانتا ہو۔ اسکے قبیلے ۔ خیمے یا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے ۔ کون ضمانت دے اسکی ؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے ؟ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔ اور کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ سے اعتراض کرے یا پھر اس شخص کی سفارش کیلئے ہی کھڑا ہو جائے اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے۔

محفل میں موجود صحابہ پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے۔ اس صورتحال سے خود عمر رضی اللہ عنہ بھی متأثر ہیں۔ کیونکہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں ؟ یا پھر اسکو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا،

خود عمر رضی اللہ عنہ بھی سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں اس صورتحال پر، سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں "معاف کر دو اس شخص کو "

نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں "نہیں امیر المؤمنین ۔ جو ہمارے باپ کو قتل کرے اسکو چھوڑ دیں ۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا "

عمر رضی اللہ عنہ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں "اے لوگو ۔ ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے؟"

ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں "میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی"

عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں "ابوذر ۔ اس نے قتل کیا ہے"

ابوذر رضی اللہ عنہ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں "چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو"

عمر رضی اللہ عنہ "جانتے ہو اسے ؟"

ابوذر رضی اللہ عنہ "نہیں جانتا "

عمر رضی اللہ عنہ "تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو ؟"

ابوذر رضی اللہ عنہ "میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں اور مجھے ایسا لگتا ہے یہ جھوٹ نہیں بول رہا ۔ انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا "

عمر رضی اللہ عنہ "ابوذر دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تیری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا "

ابوذر رضی اللہ عنہ اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں "امیر المؤمنین ۔ پھر اللہ مالک ہے"

عمر رضی اللہ عنہ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے ۔ کچھ ضروری تیاریوں کیلئے ۔ بیوی بچوں کو الوداع کہنے ۔ اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے اور پھر اس کے بعد قصاص کی ادائیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے۔

اور پھر تین راتوں کے بعد عمر رضی اللہ عنہ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے ۔ انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا۔ عصر کے وقت شہر میں (الصلاۃ جامعہ) کی منادی پھر جاتی ہے ۔ نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے ۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔

عمر رضی اللہ عنہ سوال کرتے ہیں "کدھر ہے وہ آدمی ؟"

ابوذر رضی اللہ عنہ مختصر جواب دیتے ہیں "مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین"

ابوذر رضی اللہ عنہ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ محفل میں ہُو کا عالم ہے ۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے ؟

یہ سچ ہے کہ ابوذر رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں بستے ہیں، عمرؓ رضی اللہ عنہ سے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمر رضی اللہ عنہ دیر نہ کریں کاٹ کر ابوذر رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیں ۔ لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے ۔ اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے ۔ کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا ۔ نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے ۔ حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے۔

مغرب سے چند لحظات پہلے وہ شخص آ جاتا ہے ۔ بے ساختہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے۔ ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے

عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں " اے شخص ۔ اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا۔ نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا "

وہ بولا " امیر المؤمنین ۔ اللہ کی قسم ۔ بات آپکی نہیں ہے بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے ۔ دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں ۔ اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحرا میں تنہا چھوڑ کر ۔ جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان ۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں ۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے"

عمر رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کی طرف رخ کر کے پوچھا " ابوذر ۔ تو نے کس بنا پر اسکی ضمانت دے دی تھی ؟"

ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا " اے عمر ۔ مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے"

سید عمرؓ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوجوانوں سے پوچھا کہ کیا کہتے ہو اب؟

نوجوانوں نے جن کا باپ مرا تھا روتے ہوئے کہا " اے امیر المؤمنین ۔ ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں ۔ ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے"

عمر رضی اللہ عنہ اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو ان کی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گر نے لگے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمايا ۔۔۔

" اے نوجوانو ۔ تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے"

" اے ابو ذر ۔ اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے"

" اور اے شخص ۔ اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے"

" اور اے امیر المؤمنین ۔ اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے"

آلودہ پانی پینے سے ہرسال 53ہزار پاکستانی مرتے ہیں، یونیسیف

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے کہا ہے کہ آلودہ پانی پینےسے ہر سال 53 ہزار پاکستانی بچے موت کی نیند سو جاتے ہیں، پانی میں آلودگی ہیضہ، ہیپ...