Education لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Education لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پیر، 11 اپریل، 2016

سی وی کو متاثرکن اورموثر بنانے کی چند دلچسپ باتیں

نوجوان جب بھی ملازمت کی تلاش شروع کرتے ہیں تو ان کے سامنے پہلا مرحلہ ایک پرکشش اور متاثر کن سی وی ( ریزومے) ہوتا ہے اور آج کل انٹرنیٹ کے اس دور میں ایک اچھے سی وی کے کئی نمونے مختلف ویب سائٹس پر مل جاتے ہیں تاہم ان میں بھی کچھ خامیاں ہوتی ہیں جو سی وی کو کچھ دھندلا سی دیتی ہیں اگر سی وی بنانے سے قبل ان پر توجہ دے دی جائے تو آپ کا سی وی کسی بھی کمپنی کے ایچ آر ڈیپارٹمنٹ کو کال کرنے پر مجبور کردے گا۔ 

میں (ٹائپو) سےگریز کریں:
اگر آپ سی وی میں ایسے جملوں کا استعمال کریں گے جس میں ’میں‘ کا استعمال زیادہ ہوتو ایسی سی وی کو ایچ آرمینجر دوسری نظر ہی نہیں ڈالے گا۔ اس حوالے سے کچھ سینئر ایچ آرمینیجرزکا کہنا ہے کہ میں بہت کیریئراورینٹیڈ شخص ہوں یا میں نے فلاں جگہ سے گریجویٹ کیا ہے وغیرہ جیسے جملوں آپ کے جاب کے لیے منتخب ہونے کے امکانات کو کم کردیتے ہیں لہذا ان سے پرہیز کریں۔ ٹائپواسٹائل اور اسپیلنگ کی غلطیوں سے احتراز کریں۔ ایچ آر مینیجرز کا کہنا تھا کہ سی وی پر عدم توجہی سامنے والے پر تاثر ڈالتا ہے کہ جو شخص اپنا سی وی توجہ سے نہیں بنا سکتا ہے وہ اس کے بزنس پر کیسے توجہ سے کام کرے گا۔ 

کنفیوزنگ مقاصد اور عام استعمال جملوں کا استعمال نہ کریں:
؎کچھ ٹیلنٹ مینیجرز کہتے ہیں کہ آپ کے مقاصد بالکل واضح ہونے چاہیئں جب کہ چیلنجنگ پوزیشن کا متلاشی اور پیشہ وارانہ انداز میں آگے بڑھنا چاہتا ہوں جیسے مقاصد کو سامنے رکھیں اور اپنی صلاحیتوں کو زیادہ واضح کریں۔ عام طور پر ہر سی وی میں عام ہوجانے والے جملوں کا استعمال کم کریں مثال کے طور پر میرا ریکارڈ ثابت کرتا ہے، اعلی کمیونی کیشن صلاحتیں رکھتا ہوں، انڈر پریشر اچھا کام کرسکتا ہوں اور نتائج دینے والا ہوں وغیرہ۔ 

مبالغہ آرائی سے پرہیز کریں:
عام طور پر سی وی بناتے وقت نوجوان اپنے ماضی سے متعلق تعریف کرتے وقت مبالغہ آرائی یا پھر کبھی کبھی جھوٹ سے کام لیتے ہیں لیکن یاد رکھیں آج کے اس انٹرنیـٹ کے دور میں کمپنی آپ کے ریکارڈ کی تصدیق کر سکتے ہیں جو بعد میں شرمندگی کا باعث بنتا ہے۔ 

مختصر اور جامع ہو:
اگرچہ سی وی کا کوئی آئیڈل سائز تو نہیں ہے لیکن یہ زیادہ طویل نہیں ہونا چاہئے کہ پڑھنے والا اکتاہٹ محسوس کرنے لگے جب کہ اس کی طوالت اتنی ہو کہ یہ آپ کی صلاحیتوں اور تجربے کی بھر پور عکاسی کرے۔ عام طور ہ زیادہ سے زیادہ سی وی 2 صفحات پر مشتمل ہونا چاہئے اور کوشش کریں اپنی صلاحتیں، تجربہ، تعلیم اور آپ کمپنی میں کیا قیمتی اثاثے کا اضافہ کرسکتے ہیں کو اسی کے اندر پورا کرلیں تاہم سی وی کو مختصر کرنے کی کوشش میں اپنی کوئی اہم بات نہ بھولیں۔ 

سادہ فارمیٹ:
سی وی کو رنگین، فینسی، مختلف ٹیکسٹ سائز اور مختلف فونٹس کا شاہکار مت بنائیں۔ سی وی کا فارمیٹ سادہ، آسانی سے پڑھے جانے والا اور اپیلنگ ہونا چاہئے، یاد رکھیں سیوی کو زیادہ خوبصورت بنانے کی کوشش پڑھنے والے کے سر کا درد بن سکتا ہے۔ 

کسی اور کے سی وی کی کاپی نہ کریں:
بہت سے نوجوان اپنے سی وی پر بھر پورتوجہ نہیں دیتے اورحیرت ہے کہ زندگی کے اہم ترین موڑ پرغفلت اورسستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے سے بنے کسی دوست کی سی وی کی کاپی کرلیتے ہیں جو کہ آپ کی ذات کی ترجمانی نہیں کرتا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک ہی صفحے کا سی وی کیوں نہ بنائیں لیکن خود بنائیں تاکہ وہ حقیقی نظر آئے۔

بدھ، 29 جولائی، 2015

دنیا کی 300 بہترین یونیورسٹیوں میں پاکستان کی 10 یونیورسٹیاں شامل ہیں،

اسلام آباد: وفاقی وزیر تعلیم بلیغ الرحمان نے کہا ہے کہ اس وقت دنیا کی 300 بہترین یونیورسٹیوں میں پاکستان کی 10 یونیورسٹیاں شامل ہیں ۔ بیرون ممالک سے بلائے جانے والے ماہرین تعلیم ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں لیکچر دیتے ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے رکن قومی اسمبلی ساجدہ بیگم کی جانب سے پوچھے جانے والے سوال کے جواب میں کیا ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی مختلف صوبوں میں قائم یونیورسٹیاں بہترین معیار کی ہیں اور عالمی سطح پر درجہ بندی میں شامل ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بیرون ممالک سے پاکستان ماہرین تعلیم ور سکالرز کی خدمات حاصل کرتا ہے اور انہیں معمول کے مطابق معاوضہ ادا کیا جاتا ہے انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں کسی قسم کا تضاد نہیں برتا جاتا ہے اور نہ ہی ان اعلی سطحی تعلیمی پروگراموں کے ذریعے کسی کو نوازا جاتا ہے ۔

بدھ، 17 جون، 2015

گیارہ برس کی عمر اور گریجویشن کی تین ڈگریاں


گیارہ برس کی عمر میں بچے عموماً پانچویں چھٹی جماعت میں ہوتے ہیں مگر تنیشق ابراہام اس عمر میں ایک دو نہیں تین بار گریجویشن کرچکا ہے! تیسری گریجویشن کی ڈگری اس نے گذشتہ ہفتے کیلے فورنیا کے شہر سیکرامینٹو میں واقع امریکن ریور کالج سے حاصل کی ہے۔
غیرمعمولی ذہین بچے نے ہائی اسکول کی تعلیم ایک برس پہلے مکمل کی تھی۔ ذرائع ابلاغ میں چرچا ہونے پر صدر براک اوباما کی جانب سے اسے مبارکبادی خط بھی موصول ہوا تھا۔ تنیشق کو ہائی اسکول سے فارغ التحصیل ہوئے محض ایک برس ہوا ہے، اور ایک ہی سال کے دوران اس نے گریجویشن کی تین ڈگریاں بھی حاصل کرلی ہیں.
تنشیق کو گریجویشن کی تیسری ڈگری تفویض کرنے کے لیے کالج انتظامیہ کی جانب سے خصوصی تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا۔ تقریب میں تنشیق کی ماں ( تاجی )، باپ ( بیجو) اوربہن ( ٹیارا) بھی شریک تھے۔ تنیشق کی طرح اس کی بہن بھی غیرمعمولی ذہین ہے۔ تنیشق کو تیسری ڈگری لسانیات میں دی گئی۔ اس سے قبل وہ فزیکل سائنس اور جنرل سائنس میں ڈگریاں حاصل کرچکا ہے۔
تنیشق اس بات سے قطعاً پریشان نہیں ہوتا تھا کہ اس کے ہم جماعت اس سے دگنی عمر کے ہیں۔ بلکہ ساتھی طلبا اسے دیکھ کر خوش ہوتے تھے کہ ایک بچہ ان کے ساتھ گریجویشن کررہا ہے۔
تنشیق کی ماں جو ڈاکٹر بھی ہے، اسے باقاعدگی سے گھر پر بھی پڑھاتی رہی ہے۔ ابتدائی کئی برس تک اس نے اپنے بیٹے کو اسکول کے ساتھ ساتھ گھر پر بھی تعلیم دی۔ تاجی کا کہنا ہے کہ بیٹے کی غیرمعمولی ذہانت کا اندازہ انھیں بہت جلد ہوگیا تھا۔ جو بات وہ ایک بار سُن لیتا تھا وہ اسے کبھی نہیں بھولتی تھی۔ تاجی کے مطابق کنڈرگارٹن ( کے جی ) میں بھی اس کی ذہنی سطح دوسرے بچوں سے کئی برس آگے تھی۔
غیرمعمولی ذہانت کے پیش نظر چار برس کی عمر میں تنیشق مینسا انٹرنیشنل کا رکن بن گیا تھا۔ مینسا انٹرنیشنل انتہائی بلند آئی کیو ( IQ) رکھنے والے افراد کی سب سے قدیم تنظیم ہے جو اکتوبر1946ء میں قائم ہوئی تھی۔ تنیشق کی بہن کو بھی اتنی ہی عمر میں اس تنظیم کی رکنیت دی گئی تھی۔ اس طرح تنیشق اور ٹیارا آئی کیو سوسائٹی کے کم عمر ترین رکن بہن بھائی ہیں۔ مینسا انٹرنیشنل کا رکن بننے کے لیے تنظیم کے آزمائشی امتحان میں 98 فی صد نمبر لانا ضروری ہے۔ تنیشق نے اس امتحان میں 99.9 اور ٹیارا نے 99 فی صد نمبر حاصل کیے تھے۔
گریجویشن کی تین ڈگریاں حاصل کرلینے کے باوجود تنیشق تحصیل علم سے کنارہ کش ہونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ گذشتہ ہفتے منعقد ہونے والی تقریب کے بعد اس نے مستقبل کے ارادوں کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ڈاکٹر، طبی محقق اور امریکا کا صدر بننے کا ارادہ رکھتا ہے۔ بعدازاں ایک ٹویٹ میں اس نے میڈیسن یا ریسرچ میں نوبیل پرائز کے حصول کی خواہش بھی ظاہر کی۔ تنیشق کی غیرمعمولی ذہانت کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ اس کی یہ تمام خواہشات پوری ہوسکتی ہیں، البتہ عہدہ صدارت کے حصول کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا!

بدھ، 3 جون، 2015

پاکستان میں48فیصد لڑکے اور لڑکیاں شوقیہ ڈاکٹر بنتے ہیں

پنجابی میں شاید اس لئے کہتے ہیں ”شوق دا کوئی مل نئیں“ یہ شوقین طلبہ و طالبات ایسے ہزاروں لڑکوں اور لڑکیوں کا حق مارتے ہیں جو حقیقت میں ڈاکٹر بن کر دکھی انسانیت کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ پہلے سنتے آئے تھے کہ اکثر خوشحال گھرانوں کے بچے اور بچیاں صرف نام و نمود کےلئے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ لیتے ہیں۔ انہیں تعلیم سے زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی۔ یوں بہت سے غریب مگر حقدار بچے ان اداروں میں داخلے سے رہ جاتے تھے۔ رہی سہی کسر سیلف فنانس نے پوری کر دی۔ اب ہرامیر بچہ پیسے کے زور پر کہیں بھی داخلہ لے سکتا ہے۔اب یہ جو 48فیصد ڈاکٹر بنتے ہیں ۔ یہ دور دراز علاقوں میں پسماندہ علاقوں میں نوکری کرنے یا یوں کہہ لیں ڈیوٹی دینے کی بجائے گھروں میں آرام کی زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں یوں ان کا علم اور حکومت کا وقت اور پیسہ ضائع ہو جاتا ہے اس لئے بہتر ہے کہ حکومت میڈیکل کالجوں میں داخلے کے وقت 3 سال کم از کم دیہی اور پسماندہ علاقوں میں جاب لازمی قرار دے ورنہ ڈاکٹر صاحب یا صاحبہ پر اٹھنے والا حکومتی خرچہ واپس وصول کیا جائے۔ جتنے سستے میں پاکستانی ڈاکٹر بنتے ہیں کسی اور ملک میں طلبہ کو یہ سہولت میسر نہیں اسی لئے تو کہتے ہیں ”گھر کی مرغی دال برابر“
ڈاکٹر بننے والے ایسے طلبہ کم از کم دوسرے مستحق اور حقدار طلبہ پر ستم نہ کریں۔ان کےلئے جگہ رہنے دیں۔ حکومت اگر ایسے ڈاکٹروں کو خصوصی ہر قسم کی سہولتیں مراعات دے جو پسماندہ دور دراز علاقوں میں جاب کرتے ہوں تو بہت سے ڈاکٹر اس طرف متوجہ ہو سکتے ہیں مگر ہمارے ہاں تو شہروں کے ڈاکٹرز بھی آئے روز سڑکوں پر بیٹھے نظر آتے ہیں کبھی کسی مطالبہ پر ان کی مانگ بڑھتی جاتی ہے اور مریضوں کے ساتھ ان کا رویہ دیکھ کر تو اکثر لوگ یہی مطالبہ کرتے ہیں کہ ڈاکٹروں کے مطالبے کبھی پورے نہ ہوں.

آلودہ پانی پینے سے ہرسال 53ہزار پاکستانی مرتے ہیں، یونیسیف

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے کہا ہے کہ آلودہ پانی پینےسے ہر سال 53 ہزار پاکستانی بچے موت کی نیند سو جاتے ہیں، پانی میں آلودگی ہیضہ، ہیپ...