World Special Feature لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
World Special Feature لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 19 دسمبر، 2017

انسان اور ہجرت

شاعر زندگی کو ایک سفر سے تشبیہ دیتے آئے ہیں.
یہ سفر کوئی ایک زندگی طے نہیں کرتی، نسل انسانی مابعدتاریخ سے مسافر ہے.
اس کے اسی سفر نے اسے کرہ ارض کے کونے کونے تک پہنچا دیا.
وہ ان دور دراز خطوں تک جا پہنچی جہاں خشکی سے پہنچنے کا راستہ بھی نہیں تھا اور کہیں تو سمندر اتنا طویل اور گہرا کہ آمد ورفت کا خیال تک نسل در نسل خام خیالی سمجھا جاتا رہا.
دنیا کے کئی براعظم ایک دوسرے سے نہیں جڑے ہوئے لیکن انسان سب میں بستے ہیں.
بہت سے عوامل انسان کو ایک سے دوسری جگہ جانے پر مجبور کرتے ہیں.
کبھی قدرت کا قہر اور کبھی انسان کے اپنے ’’کرتوت ‘‘اس کا سبب بنتے ہیں.
قدرتی عوامل میں زلزلے، سیلاب، قحط ، موسمیاتی تبدیلی اور وبائیں وغیرہ شامل ہیں.
اور جنگوں کا بنیادی سبب انسان یا اس کا بنایا ہوا نظام ہے.
عہدوسطیٰ میں عموماً کسی باہمت سیاح سے دنیا کے کسی ایک خطے کے باشندے کو دوسرے کی خبر ہوتی.
مارکوپولو اور ابن بطوطہ جیسے سیاح یورپ اور عرب کو چین، ہندوستان اور جانے کہاں کہاں کی خبر دیتے.
پھر ایسی دنیائیں بھی تھیں جن کے بارے باقاعدہ علم تھا ہی نہیں ، جیسا کہ براعظم امریکا اور آسٹریلیا، اگرچہ ہزاروں سال قبل ہونے والی انسانی ہجرت نے اسے بھی آباد کر رکھا تھا.
بحری سفر کی ٹیکنالوجی کی ترقی اور تجارتی ضروریات میں اضافے کے ساتھ ان دنیاؤں کے قریب آنے کے امکانات بڑھ گئے.
یورپی اقوام کی طرف سے نئی دنیا کی تلاش کے لیے بحری سفر کیے جانے لگے اور امریکا اور آسٹریلیا جیسے براعظم دریافت کرنے کا سہراکولمبس اور کیپٹن کُک کے سر باندھا گیا.
امریکا میں مقامی انڈین اور آسٹریلیا میں ابارجنیز نے بھی نئی دنیا دریافت کی.
ان کا واسطہ ایک ایسی ’’تہذیب‘‘ سے ہوا جو ہجرت کرنا چاہتی تھی.
ماضی میں ہجرتیں عموماً خاموش اور پرسکون ہوا کرتی تھیں.
امریکا میں یورپیوں کی آمد خون خرابے پر منتج ہوئی.
جنگوں اور بیماریوں نے کم و بیش نوے فیصد مقامی آبادی کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا.
یورپیوں نے زور بازو سے مقامیوں کو بے دخل کیا، مار ڈالا، بیابانوں میں دھکیل دیا یا پھر ضم کر لیا.
متعدد صورتوں میں وہ ان بیماریوں سے مارے گئے جو یورپیوں میں تھیں اور مقامی آبادی میں اس کے خلاف مدافعت موجود نہ تھی.
آج امریکا اور آسٹریلیا میں یورپ سے آنے والوں کی اولادیں اکثریت میں ہیں.
لیکن ہجرت کی ایسی مثالوں کو عمومی شکل دیتے ہوئے اسے منفی نہیں گرداننا چاہیے۔ انسانوں اور ثقافتوں کا ملنا مثبت عمل ہے جس کے ثمرات مختلف صورتوں میں سامنے آتے ہیں.
اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب کے دادا ترکی بولتے تھے کیونکہ وہ ہجرت کر کے آئے تھے.
جدید ریاستوں کے قیام اور صنعتی ترقی کے ساتھ ہجرت کا ایک اور روپ سامنے آیا اور وہ تھااندرون ملک ہجرت یا نقل مکانی.
دیہی آبادی شہروں کا رخ کرنے لگی کیونکہ روزگار کے مواقع شہروں میں پیدا ہونے لگے.
زرعی پیداوار سے زیادہ صنعتی پیداوار کی اہمیت نے اس عمل کو تیز تر کر دیا.
آج ترقی یافتہ ممالک کی زیادہ تر آبادی شہروں میں رہتی ہے اور ہجرت کا یہ عمل رکا نہیں.
ایران جیسے ترقی پذیر ملک میں زیادہ تر آبادی شہری ہے، جبکہ ہمارے ہاں اس میں گزرتے وقت کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے.
یہ نئی دنیا پرانی سے مختلف ہے، یہاں کی ضرورتیں پرانی سے مختلف ہیں جنہیں پورا کرنے کے لیے ریاستیں اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے بڑی بڑی افواج رکھنے کے باوجود ہجرت کے سوال پر انہیں نرم کرنے پر راضی ہو جاتی ہیں.
مثال کے طور پر کم و بیش نصف صدی قبل یورپ اور امریکا کے لیے ویزا لینا، وہاں رہنا یہاں تک کہ شہریت اختیار کرنا پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملک کے کسی شہری کے لیے مشکل نہ تھا.
یہ وہ وقت تھا جب معاشی ترقی ہو رہی تھی اور کام کرنے والوں کی ضرورت تھی.
تیل کی دریافت کے بعد یہی صورت حال خلیجی ممالک کی رہی.
دنیا بالخصوص ترقی یافتہ دنیا میں یکے بعد دیگرے آنے والے معاشی بحرانوں نے صورت حال کو بدل دیا ہے.
آج کی صورت حال قطعاً مختلف ہے، یہاں تک کہ یورپ اور امریکا میں مہاجرین کی آمدایک بڑا انتخابی سوال بن چکا ہے.
بہت سی دائیں بازو کی جماعتوں کے منشور کا اہم ترین حصہ مہاجرین کی آمد کو روکنے پر مشتمل ہے.
تیسری دنیا سے ہجرت کی ایک بڑی وجہ بہتر زندگی گزارنے کی خواہش ہے لیکن صرف یہی وجہ نہیں.
گزشتہ کچھ عرصے سے دنیا کے لوگوں کی مجبوریاں یا ان کی زندگیوں میں مشکلات شاید کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہیں کہ وہ اپنے علاقوں کو چھوڑ کر دوسرے علاقوں یا ملکوں کا رخ کررہے ہیں.
دوسری جنگ عظیم کے بعد گزشتہ کچھ عرصے میں مہاجرین کی تعداد سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی.
2000ء میں بین الاقوامی مہاجرین (مائیگرنٹس) کی تعدادساڑھے سترہ کروڑ ریکارڈ ہوئی جو پانچ برسوں میں بڑھ کر 24 کروڑ 40لاکھ تک پہنچ گئی.
دنیا کے دو تہائی مہاجرین یورپ یا ایشیا میں ہیں.
ہر دس میں سے ایک مہاجر کی عمر 15 برس سے کم ہے.
موجودہ دور میں ہجرت کی دوبڑی وجوہات ہیں.
جنگیں اور معاشی عدم توازن.
نائن الیون کے بعد افغانستان غیر مستحکم ہوا اور اس کے بعد مشرق وسطیٰ.
جنگیں یا خانہ جنگیاں عراق سے ہوتی ہوئی شام اور لیبیا تک پہنچیں، یمن بھی اس کی لپیٹ میں ہے.
فلسطین کب سے مقبوضہ ہے اور جنگوں کی وجہ بن چکا ہے.
افریقہ کے کئی ممالک میں خانہ جنگیاں اور غربت لوگوں کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ اپنی جان کی پروا کیے بغیر ترقی یافتہ ممالک کا رخ کریں.
اسی لیے ان دو خطوں سے ہجرت کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے.
ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں آمدنی اور سہولیات کی تفریق بھی اس کا ایک بڑا سبب ہے.
چار دسمبر 2000ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دنیا میں مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کو محسوس کرتے ہوئے 18 دسمبر کو مہاجرین کا عالمی دن قرار دیا.
1990ء میں اسی دن جنرل اسمبلی نے ایک کنونشن پر دستخط کیے.
اس کا مقصد مہاجر محنت کشوں اور ان کے اہل خانہ کا تحفظ تھا.
اس کی وجہ یہ ہے کہ مہاجر محنت کشوں کا زیادہ استحصال کیا جاتا ہے بالخصوص اس وقت جب ان کی حیثیت غیر قانونی ہوتی ہے.
انسانی حقوق کی رو سے ہجرت انسان کا حق ہے اور ایسا کرنے والے کو مکمل تحفظ حاصل ہونا چاہیے.
اس کے ثمرات سے ہر معاشرہ مستفید ہوا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا.
تاہم کوشش ہونی چاہیے کہ ایسے حالات پیدا نہ ہوں جن سے لوگوں کو مجبوراً ہجرت کرنا پڑے.

جمعرات، 14 دسمبر، 2017

ایک عورت جس کا خاوند بہت پیار کرتا تها

کسی جگہ ایک بوڑھی مگر سمجھدار اور دانا عورت رہتی تھی جس کا خاوند اُس سے بہت ہی پیار کرتا تھا۔
دونوں میں محبت اس قدر شدید تھی کہ اُسکا خاوند اُس کیلئے محبت بھری شاعری کرتا اور اُس کیلئے شعر کہتا تھا۔
عمر جتنی زیادہ ہورہی تھی،
باہمی محبت اور خوشی اُتنی ہی زیادہ بڑھ رہی تھی۔
اس عورت سے اُس کی خوشیوں بھری زندگی کا راز پوچھا گیا کہ.
آیا وہ بہت لذیز کھانا پکاتی ہے؟ یا اس کا خاوند اس کے حسن و جمال پر فریفتہ ہے؟
یا وہ بہت زیادہ بچے پیدا کرنے والی خاتون رہی ہے؟
یا پھر اس کی محبت کا کوئی اور راز ہے؟
عورت نے یوں جواب دیا:
خوشیوں بھری زندگی کے اسباب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات کے بعد خود عورت کے اپنے ہاتھوں میں ہیں۔
عورت چاہے تو وہ اپنے گھر کو جنت بنا سکتی ہے اور اگر چاہے تو جہنم بنا دے۔
مت سوچیئے کہ مال و دولت خوشیوں کا سبب ہے۔
تاریخ میں کتنی ہی مالدار عورتیں ایسی ہیں جن کے خاوند اُن سے کنارہ کش ہو گئے۔
نہ ہی بہت زیادہ بچے پیدا کرنے والی عورت ہونا کوئی بہت بڑی خوبی ہے۔
کئی عورتوں نے دس دس بچے جنے مگر وہ اپنے شوہروں سے کوئی خصوصی التفات و محبت نہ پا سکیں بلکہ نوبت طلاق تک جا پہنچی.
اچھا کھانا پکانا بھی کوئی خوبی نہیں ہے، سارا دن کچن میں کھانے پکانے کے باوجود بھی عورتیں خاوند کی شکایت کرتی نظر آتی ہیں.
تو پھر آپ ہی بتا دیں اس پُرسعادت اور مسرت بھری زندگی کا راز؟ اور آپ اپنے اورخاوند کے درمیان درپیش مسائل و مشکلات سے کس طرح نپٹا کرتی تھیں؟
اُس نے جواب دیا:
جس وقت میرا خاوند غصے میں آتا اور بلا شبہ میرا خاوند بہت ہی غصیلا آدمی تھا، میں اُن لمحات میں (نہایت ہی احترام کیساتھ) مکمل خاموشی اختیار کر لیا کرتی تھی۔
احترام کےساتھ خاموشی یعنی آنکھوں سے حقارت اور طنزیہ پن نہ جھلکے۔
آدمی بہت عقلمند ہوتا ہے ایسی صورتحال کو بھانپ لیتا ہے۔
تو آپ ایسے میں کمرے سے باہر کیوں نہیں چلی جایا کرتی تھیں؟
اُس نے کہا: خبردار ایسی حرکت مت کرنا، اس سے تو ایسا لگے گا، تم اُس سے فرار چاہتی ہو اور اُسکا نقطہ نظر نہیں جاننا چاہتی. خاموشی تو ضروری ہے ہی، اس کے ساتھ ساتھ خاوند جو کچھ کہے اُسے ناصرف سُننا بلکہ اُس سے اتفاق کرنا بھی اُتنا ہی اشد ضروری ہے۔
میرا خاوند جب اپنی باتیں پوری کر لیتا تو میں کمرے سے باہر چلی جاتی تھی، کیونکہ اس سارے شور، شرابے کے بعد میں سمجھتی تھی کہ اُسے آرام کی ضرورت ہے۔
میں اپنے روزمرہ کے گھریلو کاموں میں لگ جاتی، اور اپنے دماغ کو اُس جنگ سے دور رکھنے کی کوشش کرتی.
تو آپ اس ماحول میں کیا کرتی تھیں؟ کئی دنوں کیلئے لا تعلقی اور بول چال چھوڑ دینا وغیرہ؟
اُس نے کہا:
ہرگز نہیں، بول چال چھوڑ دینے کی عادت انتہائی گھٹیا اور خاوند سے تعلقات کو بگاڑنے کیلئے دورُخی تلوار کی مانند ہے۔
اگر تم خاوند سے بولنا چھوڑ دیتی ہو تو ہو سکتا ہے شروع میں اُس کیلئے یہ تکلیف دہ ہو۔
شروع میں وہ تم سے بولنے کی کوشش بھی کریگا۔
لیکن جس طرح دن گزرتے جائیں گے وہ اِس کا عادی ہوتا چلا جائے گا۔
تم ایک ہفتہ کیلئے بولنا چھوڑو گی تو اُس میں تم سے دو ہفتوں تک نہ بولنے کی استعداد پیدا ہو جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ وہ تمہارے بغیر بھی رہنا سیکھ لے۔
خاوند کو ایسی عادت ڈال دو کہ تمہارے بغیر اپنا دم بھی گھٹتا ہوا محسوس کرے گویا تم اُس کیلئے ہوا کی مانند ہو. گویا تم وہ پانی ہو جس کو پی کر وہ زندہ رہ رہا ہو۔
باد صبا بنو باد صرصر نہیں
اُس کے بعد آپ کیا کرتی تھیں؟
اُس عورت نے کہا:
میں دو یا دو سے کچھ زیادہ گھنٹوں کے بعد جوس یا پھر گرم چائے لے کر اُس کے پاس جاتی، اور اُسے نہایت سلیقے سے کہتی، لیجیئے چائے پیجیئے۔
مجھے یقین ہوتا تھا کہ وہ اس لمحے اس چائے یا جوس کا متمنی ہو گا.
میرا یہ عمل اور اپنے خاوند کے ساتھ گفتگو اسطرح ہوتی تھی کہ گویا ہمارے درمیان کوئی غصے یا لڑائی والی بات سرے سے ہوئی ہی نہیں۔
جبکہ اب میرا خاوند ہی مجھ سے اصرار کر کے بار بار پوچھ رہا ہوتا تھا کہ کیا میں اُس سے ناراض تو نہیں ہوں۔
میرا ہر بار اُسے یہی جواب ہوتا تھا کہ نہیں میں تو ہرگز ناراض نہیں ہوں۔
اسکے بعد وہ ہمیشہ اپنے درشت رویے کی معذرت کرتا اور مجھ سے گھنٹوں پیار بھری باتیں کرتا تھا۔
تو کیا آپ اُس کی ان پیار بھری باتوں پر یقین کر لیتی تھیں؟
ہاں، بالکل. میں جاہل نہیں ہوں۔
کہ میں اپنے خاوند کی اُن باتوں پر تو یقین کر لوں جو وہ مجھے غصے میں کہہ ڈالتا ہے اور اُن باتوں کا یقین نہ کروں جو وہ مجھے محبت اور پرسکون حالت میں کہتا ہے؟
تو پھر آپکی عزت نفس کہاں گئی؟
کیا عزت اسی کا نام ہے کہ تم غصے میں آئے ہوئے ایک شخص کی تلخ باتوں پر تو یقین کرکے اُسے اپنی عزت نفس کا مسئلہ بنا لومگر اُس کی اُن باتوں کو کوئی اہمیت نہ دو جو وہ تمہیں پیار بھرے اور پرسکون ماحول میں کہہ رہا ہو!
میں فوراً ہی اس غصے کی حالت میں دی ہوئی گالیوں اور تلخ و ترش باتوں کو بھلا کر اُنکی محبت بھری اور مفید باتوں کو غور سے سنتی تھی۔
جی ہاں، خوشگوار اور محبت بھری زندگی کا راز عورت کی عقل میں موجود ہے مگر یہ راز اُسکی زبان سے بندھا ہوا ہے.

اتوار، 3 دسمبر، 2017

کیا گناہ کرتے ہوئے تکلیف نہیں ہوتی

کچھ دن پہلے ایک خاتون سے دوپہر کو ملاقات ہوئی جو جسم فروش تھیں رات کو چونکہ وہ روزی کمانے میں مصروف ہوتی ہیں اس وجہ سے دن میں ملاقات کرنی پڑی ویسے بھی ایک مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی کی روزی کمانے کے وقت اس کو مشکل میں ڈالے،
انہوں نے بہت عزت کے ساتھ ڈرائنگ روم میں بٹھایا ، خاطر مدارت کی ، ان کا حال پوچھنے کے بعد میں نے سوال کیا کہ آپ اس بے لذت کام میں کیسے پھنس گئیں؟
 ایک لمحے کیلئےان کے چہرے پر اداسی چھلکی پھر مسکرا کربولیں کہ عشق ہوگیا تھا اور محبت میں اندھی ہوکر گھر سے بھاگ نکلی کچھ دن محبوب نے چار دیواری میں میری چادر اتار کر دل و جان سے محبت کی اور اس کے بعد نہ سر ڈھانپنے کو دیوار رہی نہ چادر رہی 
جب واپسی کا سفر کرنے کا سوچا تو خیال آیا کہ بھاگنے کا فیصلہ تو میرا تھا اب اگر گھر گئی تو جو تھوڑی بہت والدین کی عزت بچی ہے وہ بھی لوگ تارتار کر دیں گے
 رہنے کو ایک جگہ ٹھکانا ملا جہاں مجھ جیسی لڑکیاں تھیں اور بس پھر جسم ہی روزی روٹی کا سبب بن گیا 
سوال کیا کہ والدین تو معاف کر ہی دیتے ہیں ان کا نرم دل ہوتا ہے تو ایک بار چلی جاتیں؟
 تو مسکرا کر بولی معاف تو اللہ بھی کردیتا ہے لیکن لوگ معاف نہیں کرتے
 عورت کا منہ کالا ھو جائے تو پھر یہ دنیا والے کبھی گورا ہونے نہیں دیتے ، مرتے دم تک کالا ہی رہتا ہے
سوال کیا کہ چلیں بھیک مانگ لیتیں کم سے کم جسم فروشی سے تو اچھا کام ہے؟
تو بولیں یہ سب کتابی باتیں ہیں کوئی کسی بھکارن کو کرائے کا کمرہ بھی نہیں دیتا جھونپڑی میں بھی نہیں رکھتا عزت بیچ کر کم سے کم عزت سے تو رہ لیتی ھوں ، اپنا گھر ہے اپنا بستر ہے اس دنیا میں اسی کی عزت ہے جس کے پاس پیسا ہے یہ دنیا تو منافق لوگوں سے بھری پڑی ہے جو نیکی کا درس دیتے ہیں اور اندر سے شیطان ہیں، کسی مولوی کو کہیں کہ طوائف سے شادی کرے گا تو وہیں بولتی بند ہو جائے گی 
سوال کیا کہ محبت کیا ہے؟
تو کچھ لمحے خاموش رہنے کے بعدبولیں کہ محبت بھی ایک دھندہ ہے، مرد اپنی رقم انویسٹ کرتا ہے اور پھر محبوبہ کے جسم سے کھیل کر سود سمیت واپس لیتا ہے اب وہ عورت اپنے محبوب کے رحم و کرم پر ہوتی ہے مرضی ہے شادی کرلے اور مرضی ہے چھوڑ دے جو لوگ سچ میں محبت کرتے ہیں وہ نکاح کا راستہ اختیار کرتے ہیں  
سوال کیا کہ گناہ کرتے ہوئے تکلیف نہیں ہوتی؟
تو بولیں کہ جب انسان گندگی کے ڈھیر میں رہنے لگ جائے تو پھر اسے بدبو آنا بند ہو جاتی ہے.
تحریر نامعلوم

جمعرات، 2 جون، 2016

مائیں دوائی سے کہاں ٹهیک ہوتی ہیں بابو جی...

ہائی سٹریٹ ساہیوال پر موٹر سائیکل کو پنکچر لگواتے ہوئے میں فیصلہ کر چکا تھا کہ اس ہفتے بھی اپنے گھر واپس کبیروالا نہ ہی جاوں تو بہتر ہے ،دیر تو ویسے بھی ہوچکی تھی اورجہاں پچھلےتین ہفتے گزر گئے ہیں یہ بھی گزار ہی لوں تو گرمیوں کی چھٹیوں میں ایک ہی بار چلا جاوں گا۔
اسی سوچ بچار میں روڈ پر کھڑے میں نے پندرہ سولہ سال کے ایک نوجواں کو اپنی طرف متوجہ پایا۔
وہ عجیب سوالیہ نظروں سے میری جانب دیکھ رہا تھا،جیسے کوئی بات کرنا چاہ رہا ہو۔
لیکن رش کی وجہ سے نہیں کر پا رہاتھا۔
جب پنکچر لگ گیا تو میں نے دکاندار کو 100 روپے کا نوٹ دیا اس نے 20 روپے کاٹ کر باقی مجھے واپس کر دیے۔
میں موٹر سائیکل پر سوار ہوکر جونہی واپس شہر کی طرف مڑنے لگاتو وہ لڑکا جلدی سے میرے پاس آکر کہنے لگا " بھائی جان میں گھر سے مزدوری کرنے آیا تھا ،آج دیہاڑی نہیں لگی آپ مجھے واپسی کا کرایہ 20 روپے دے دیں گے"میں نے ایک اچٹتی سی نگاہ اس پر ڈالی ،سادہ سا لباس،ماتھے پر تیل سے چپکے ہوئے بال ،پاوں میں سیمنٹ بھراجوتا۔
مجھے وہ سچا لگا،میں نے 20 روپے نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دئیے ،وہ شکریہ ادا کر کے چلنےلگا تو نہ جانے میرے دل کیا خیال آیا ،میں نے کہا،سنو ،تمہیں دیہاڑی کتنی ملتی ہے،اس کے جواب دینےسے پہلے ہی میں نے باقی کے 60 روپے بھی اس کی طرف بڑھا دیے۔
وہ ہچکچاتے ہوئے پیچھے ہٹا اور کہنے لگا"نہیں بھائی جان !میرا گھر منڈھالی شریف ہے،میں پیدل بھی جاسکتا تھا لیکن کل سےماں جی کی طبیعت ٹھیک نہیں ،اوپر سے دیہاڑی بھی نہیں لگی،سوچا آج جلدی جا کر ماں جی کی خدمت کر لوں گا"۔
میں نے کہا اچھا یہ پیسے لے لو ماں جی کے لیے دوائی لے جانا۔
وہ کہنے لگا" دوائی تو میں کل ہی لے گیا تھا۔
آج میں سارا دن ماں جی کے پاس رہوں گا تو وہ خود ہی ٹھیک ہو جائیں گی،مائیں دوائی سے کہاں ٹھیک ہوتی ہیں بابوجی!" میں نے حیران ہو کرپوچھا ،تمہارا نام کیا ہے؟
اتنے میں اس کی بس بھی آگئی،وہ بس کے گیٹ میں لپک کر چڑھ گیا اور میری طرف مسکراتے ہوئے زور سے بولا"گلو"۔
گلو کی بس چل پڑی لیکن گلو کے واپس کیے ہوئے 60 روپے میری ہتھیلی پر پڑے ہوئے تھے اورمیں ہائی سٹریٹ کے رش میں خود کو یک دم بہت اکیلا محسوس کرنے لگا۔
کچھ سوچ کر میں نے موٹرسائیکل کارخ ریلوے اسٹیشن کی طرف موڑ لیا۔
موٹر سائیکل کو اسٹینڈ پر کھڑا کرکے ٹوکن لیا اور ٹکٹ گھر سے 50 روپے میں خانیوال کا ٹکٹ لے کر گاڑی کے انتظار میں بینچ پر بیٹھ گیا۔
کب گاڑی آئی ،کیسے میں سوار ہوا کچھ خبر نہیں، خانیوال اسٹیشن پر اتر کے پھاٹک سے کبیروالا کی وین پر سوار ہوا،آخری بچے ہوئے10 روپے کرایہ دے کر جب شام ڈھلے اپنے گھر کے دروازے سے اندر داخل ہوا تو سامنے صحن میں چارپائی پر امی جان سر پر کپڑا باندھے نیم دارز تھیں۔
میرا بڑا بھائی دوائی کا چمچ بھر کر انہیں پلا رہا تھا۔
مجھے دیکھتے ہی امی جان اٹھ کر کھڑی ہوئیں اور اونچی آواز میں کہنے لگیں" او! میرا پترخیر سے گھر آگیا ہے! اب میں بالکل ٹھیک ہوں "۔
میں آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے دوڑ کر ان کے سینے سے جالگا۔
بس کے گیٹ میں کھڑے گلوکا مسکراتا ہوا چہرہ یک دم میری آنکھوں کے سامنے آگیا اور میں سمجھ گیا کہ اس نے مجھے 60روپے واپس کیوں کیےتھے۔

اتوار، 8 مئی، 2016

ماں کی محبت اور طاقت پر ايک خوبصورت حکايت

سمندرکِنارےایک درخت تھا جس پہ چڑیا کا گھونسلا تھا ایک دن تیز ہوا چلی تو چڑیا کا بچہ سمندر میں گرگیا چڑیا بچے کو نکالنے لگی تو اُسکے اپنے پر گیلے ہوگئے اور وہ لڑکھڑا گئی.
اُس نے سمندر سے کہا اپنی لہر سے میرا بچہ باہر پھنک دے مگر سمندر نہ مانا تو چڑیابولی دیکھ میں تیرا سارا پانی پی جاوُں گی تجھے ریگستان بنا دونگی.
سمندراپنے غرور میں گرجا کہ اے چڑیا میں چاہوں تو ساری دنیا کو غرق کردوں تو تو میرا کیا بگاڑ سکتی ہے؟
چڑیا نے اتنا سُنا تو بولی چل پھرخشک ہونے کو تیار ہوجا اسی کےساتھ اُس نےایک گھونٹ بھرا اُوراڑ کےدرخت پہ بیٹھی پھرآئی گھونٹ بھراپھردرخت پہ بیٹھی یہی عمل اُس نے7-8 بار دُھرایا تو سمندر گھبرا کے بولا:
پاگل ہوگئی ہےکیا کیوں مجھےختم کرنےلگی ہے ؟
مگرچڑیااپنی دھن میں یہ عمل دُھراتی رہی ابھی صرف 22-25 بارہی ہوا کہ سمندرنےایک زور کی لہرماری اورچڑیا کے بچے کو باہر پھینک دیا.
درخت جو کافی دیر سے یہ سب دیکھ رہا تھا سمندرسےبولا اے طاقت کےبادشاہ تو جو ساری دُنیا کو پل بھر میں غرق کر سکتا ہےاس کمزور سی چڑیا سےڈرگیا یہ سمجھ نہیں آئی ؟
سمندربولا تو کیا سجھا میں جو تجھےایک پل میں اُکھاڑ سکتاہوں اک پل میں دُنیا تباہ کرسکتا ہوں اس چڑیاسے ڈرونگا؟
نہیں میں تواس ایک ماں سےڈرا ہوں ماں کےجذبے سے ڈرا ہوں اک ماں کے سامنے توعرش ہل جاتا ہے تو میری کیا مجال.
جس طرح وہ مجھےپی رہی تھی مجھےلگا کہ وہ مجھےریگستان بنا ہی دےگی.
ماں " اللہ پاک " کی سب سے عظیمنعمت ہے.
اس کی قدر کریں اللہ پاک سے دعاء ہے کہ وہ ھمیںاپنے والدین کی خدمت کی توفیقعطاء فرمائے.آمین

ہفتہ، 11 جولائی، 2015

مولاناعبدالستار ایدھی کا سفر حج ، شیطان کو کنکریاں مارنے سے انکار ، انتہائی دلچسپ وجہ بتادی

مولاناعبدالستار ایدھی نے اپنی فیملی کے ہمراہ 1972ءمیں فریضہ حج اداکیا اور اس کے لیے گاڑی میں ہی حجازمقدس پہنچے لیکن فریضہ حج کی ادائیگی کے دوران اُنہوں نے شیطان کو کنکریاں مارنے سے انکار کردیا ، اس انکار سے متعلق سوال پر مولانا عبدالستار ایدھی نے بتایاکہ وطن واپس آکر یہ رسم اداکرلوں گا، اب ڈھونڈتاہوں مگر ملتاکوئی نہیں ۔ 
نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگوکرتے ہوئے بلقیس ایدھی نے بتایاکہ مجموعی طورپر 4,000روپے ملے تھے ، گاڑی کا ٹکٹ 1,100روپے تھا لیکن ہم نے مفت سفر کیا، 22دن میں وہاں پہنچ گئے ، مولاناصاحب عشاءکی نماز پڑھنے کے بعد جہاں بھی ہوتے ، پڑاﺅ ڈالنے کی ہدایت کرکے آگے جانے سے انکار کردیتے ، صبح کی نماز پڑھ کر دوبارہ سفر شروع کردیتے ۔
مولاناعبدالستار ایدھی نے بتایاکہ یہ تجربہ کٹھن تھا لیکن اللہ نے کامیاب کرنا تھا، فرض اداہوگیا، روزہ رسول ﷺ کو پہلی مرتبہ دیکھتے ہی رونا آگیا، توبہ کرنے لگا ، بس اللہ قبول کرے ۔ 
ایک سوال کے جواب میں مولاناعبدالستار ایدھی کاکہناتھاکہ ’میں نے کہا،پاکستان میں شیطان بہت ہیں ، وہاں نہیں ماریں ، یہاں کنکریوں کا شکار ڈھونڈتا بہت ہوں ، ملتے نہیں ہیں ۔ 
بلقیس ایدھی نے بتایاکہ دوآدمیوں نے کنکریاں انہیں دے دیں ،رش میں میری حالت غیرہوگئی، انہوں نے کہاکہ پاکستان میں بہت شیطان ہیں ، میں مارلوں گا، میں اپنی بیوی کی جان بچاکر پہاڑ پر چڑھ جاتاہوں ، پاکستان میں بہت ملتے ہیں ، ابھی بھی مارسکتے ہیں ۔

ہفتہ، 28 فروری، 2015

تنہائی کی موت

ایک دفعہ میں نے ایک زرد رنگ کی تتلی پکڑ کر ایک گلاس کے نیچے بند کر دی.
اس کا دل بہلانے کے لئے میں نے دو چار رنگین پھول بھی ساتھ مقید کر دیئے.
یوں زرد تتلی کو محبوس کر کے مجھے عجیب راحت سی محسوس ھوئی.
لیکن جب میں دوپہر کا کھانا کھا کر لوٹا تو وہ تتلی پھولوں کی قبر میں پہلو کے بل پڑی تھی.
میں نے اسے پانی پلا کر زندہ کرنا چاھا تو اس کے پروں کا زرد برادہ میری انگلیوں پر اتر آیا.
اس کے خوش رنگ پر زندہ رھے لیکن وہ خود مر گئی.

جمعرات، 12 فروری، 2015

بستياں کون ويران کرتے ہيں

کہتے ہیں کہ ایک طوطا طوطی کا گزر ایک ویرانے سے ہوا ، ویرانی دیکھ کر طوطی نے طوطے سے پوچھا ”کس قدر ویران گاؤں ہے،.؟ “طوطے نے کہا لگتا ہے یہاں کسی الو کا گزر ہوا ہے.
“جس وقت طوطا طوطی باتیں کر رہے تھے ، عین اس وقت ایک الّو بھی وہاں سے گزر رہا تھا ،اس نے طوطے کی بات سنی اور وہاں رک کر ان سے مخاطب ہوکر بولا، تم لوگ اس گاؤں میں مسافر لگتے ہو، آج رات تم لوگ میرے مہمان بن جاؤ،میرے ساتھ کھانا کھاؤ،
اُلو کی محبت بھری دعوت سے طوطے کا جوڑا انکار نہ کرسکا اور انہوں نے اُلو کی دعوت قبول کرلی, کھانا کھا کر جب انہوں نے رخصت ہونے کی اجازت چاہی، تو اُلو نے طوطی کا ہاتھ پکڑ لیا ور کہا .. تم کہاں جا رہی ہو ،طوطی پرشان ہو کر بولی یہ کوئی پوچنے کی بات ہے ،میں اپنے خاوند کے ساتھ واپس جا رہی ہوں۔۔۔،
الو یہ سن کر ہنسا اور کہا یہ تم کیا کہ رہی ہو تم تو میری بیوی ہو اس پہ طوطا طوطی الو پر جھپٹ پڑے ور گرما گرمی شروع ہو گئی، دونوں میں جب بحث و تکرار زیادہ بڑھی تو اُلو نے طوطے کے کے سامنے ایک تجویز پیش کرتے ہوئے کہا ”ایسا کرتے ہیں ہم تینوں عدالت چلتے ہیں اور اپنا مقدمہ قاضی کے سامنے پیش کرتے ہیں،قاضی جو فیصلہ کرے وہ ہمیں قبول ہوگا“اُلو کی تجویز پر طوطا اور طوطی مان گئے اور تینوں قاضی کی عدالت میں پیش ہوئے ،قاضی نے دلائل کی روشنی میں اُلو کے حق میں فیصلہ دے کر عدالت برخاست کردی،طوطا اس بے انصافی پر روتا ہوا چل دیا تو اُلو نے اسے آواز دی ،”بھائی اکیلئے کہاں جاتے ہواپنی بیوی کو تو ساتھ لیتے جاؤ“
طوطے نے حیرانی سے اُلو کی طرف دیکھا اور بولا ”اب کیوں میرے زخموں پر نمک چھڑکتے ہو، یہ اب میری بیوی کہاں ہے ،عدالت نے تو اسے تمہاری بیوی قرار دے دیا ہے“
اُلو نے طوطے کی بات سن نرمی سے بولا، نہیں دوست طوطی میری نہیں تمہاری ہی بیوی ہے.
میں تمہیں صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ بستیاں الو ویران نہیں کرتے.
بلکہ ناانصافی سے ویران ہوتی ہیں

آلودہ پانی پینے سے ہرسال 53ہزار پاکستانی مرتے ہیں، یونیسیف

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے کہا ہے کہ آلودہ پانی پینےسے ہر سال 53 ہزار پاکستانی بچے موت کی نیند سو جاتے ہیں، پانی میں آلودگی ہیضہ، ہیپ...