منگل، 19 دسمبر، 2017

انسان اور ہجرت

شاعر زندگی کو ایک سفر سے تشبیہ دیتے آئے ہیں.
یہ سفر کوئی ایک زندگی طے نہیں کرتی، نسل انسانی مابعدتاریخ سے مسافر ہے.
اس کے اسی سفر نے اسے کرہ ارض کے کونے کونے تک پہنچا دیا.
وہ ان دور دراز خطوں تک جا پہنچی جہاں خشکی سے پہنچنے کا راستہ بھی نہیں تھا اور کہیں تو سمندر اتنا طویل اور گہرا کہ آمد ورفت کا خیال تک نسل در نسل خام خیالی سمجھا جاتا رہا.
دنیا کے کئی براعظم ایک دوسرے سے نہیں جڑے ہوئے لیکن انسان سب میں بستے ہیں.
بہت سے عوامل انسان کو ایک سے دوسری جگہ جانے پر مجبور کرتے ہیں.
کبھی قدرت کا قہر اور کبھی انسان کے اپنے ’’کرتوت ‘‘اس کا سبب بنتے ہیں.
قدرتی عوامل میں زلزلے، سیلاب، قحط ، موسمیاتی تبدیلی اور وبائیں وغیرہ شامل ہیں.
اور جنگوں کا بنیادی سبب انسان یا اس کا بنایا ہوا نظام ہے.
عہدوسطیٰ میں عموماً کسی باہمت سیاح سے دنیا کے کسی ایک خطے کے باشندے کو دوسرے کی خبر ہوتی.
مارکوپولو اور ابن بطوطہ جیسے سیاح یورپ اور عرب کو چین، ہندوستان اور جانے کہاں کہاں کی خبر دیتے.
پھر ایسی دنیائیں بھی تھیں جن کے بارے باقاعدہ علم تھا ہی نہیں ، جیسا کہ براعظم امریکا اور آسٹریلیا، اگرچہ ہزاروں سال قبل ہونے والی انسانی ہجرت نے اسے بھی آباد کر رکھا تھا.
بحری سفر کی ٹیکنالوجی کی ترقی اور تجارتی ضروریات میں اضافے کے ساتھ ان دنیاؤں کے قریب آنے کے امکانات بڑھ گئے.
یورپی اقوام کی طرف سے نئی دنیا کی تلاش کے لیے بحری سفر کیے جانے لگے اور امریکا اور آسٹریلیا جیسے براعظم دریافت کرنے کا سہراکولمبس اور کیپٹن کُک کے سر باندھا گیا.
امریکا میں مقامی انڈین اور آسٹریلیا میں ابارجنیز نے بھی نئی دنیا دریافت کی.
ان کا واسطہ ایک ایسی ’’تہذیب‘‘ سے ہوا جو ہجرت کرنا چاہتی تھی.
ماضی میں ہجرتیں عموماً خاموش اور پرسکون ہوا کرتی تھیں.
امریکا میں یورپیوں کی آمد خون خرابے پر منتج ہوئی.
جنگوں اور بیماریوں نے کم و بیش نوے فیصد مقامی آبادی کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا.
یورپیوں نے زور بازو سے مقامیوں کو بے دخل کیا، مار ڈالا، بیابانوں میں دھکیل دیا یا پھر ضم کر لیا.
متعدد صورتوں میں وہ ان بیماریوں سے مارے گئے جو یورپیوں میں تھیں اور مقامی آبادی میں اس کے خلاف مدافعت موجود نہ تھی.
آج امریکا اور آسٹریلیا میں یورپ سے آنے والوں کی اولادیں اکثریت میں ہیں.
لیکن ہجرت کی ایسی مثالوں کو عمومی شکل دیتے ہوئے اسے منفی نہیں گرداننا چاہیے۔ انسانوں اور ثقافتوں کا ملنا مثبت عمل ہے جس کے ثمرات مختلف صورتوں میں سامنے آتے ہیں.
اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب کے دادا ترکی بولتے تھے کیونکہ وہ ہجرت کر کے آئے تھے.
جدید ریاستوں کے قیام اور صنعتی ترقی کے ساتھ ہجرت کا ایک اور روپ سامنے آیا اور وہ تھااندرون ملک ہجرت یا نقل مکانی.
دیہی آبادی شہروں کا رخ کرنے لگی کیونکہ روزگار کے مواقع شہروں میں پیدا ہونے لگے.
زرعی پیداوار سے زیادہ صنعتی پیداوار کی اہمیت نے اس عمل کو تیز تر کر دیا.
آج ترقی یافتہ ممالک کی زیادہ تر آبادی شہروں میں رہتی ہے اور ہجرت کا یہ عمل رکا نہیں.
ایران جیسے ترقی پذیر ملک میں زیادہ تر آبادی شہری ہے، جبکہ ہمارے ہاں اس میں گزرتے وقت کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے.
یہ نئی دنیا پرانی سے مختلف ہے، یہاں کی ضرورتیں پرانی سے مختلف ہیں جنہیں پورا کرنے کے لیے ریاستیں اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے بڑی بڑی افواج رکھنے کے باوجود ہجرت کے سوال پر انہیں نرم کرنے پر راضی ہو جاتی ہیں.
مثال کے طور پر کم و بیش نصف صدی قبل یورپ اور امریکا کے لیے ویزا لینا، وہاں رہنا یہاں تک کہ شہریت اختیار کرنا پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملک کے کسی شہری کے لیے مشکل نہ تھا.
یہ وہ وقت تھا جب معاشی ترقی ہو رہی تھی اور کام کرنے والوں کی ضرورت تھی.
تیل کی دریافت کے بعد یہی صورت حال خلیجی ممالک کی رہی.
دنیا بالخصوص ترقی یافتہ دنیا میں یکے بعد دیگرے آنے والے معاشی بحرانوں نے صورت حال کو بدل دیا ہے.
آج کی صورت حال قطعاً مختلف ہے، یہاں تک کہ یورپ اور امریکا میں مہاجرین کی آمدایک بڑا انتخابی سوال بن چکا ہے.
بہت سی دائیں بازو کی جماعتوں کے منشور کا اہم ترین حصہ مہاجرین کی آمد کو روکنے پر مشتمل ہے.
تیسری دنیا سے ہجرت کی ایک بڑی وجہ بہتر زندگی گزارنے کی خواہش ہے لیکن صرف یہی وجہ نہیں.
گزشتہ کچھ عرصے سے دنیا کے لوگوں کی مجبوریاں یا ان کی زندگیوں میں مشکلات شاید کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہیں کہ وہ اپنے علاقوں کو چھوڑ کر دوسرے علاقوں یا ملکوں کا رخ کررہے ہیں.
دوسری جنگ عظیم کے بعد گزشتہ کچھ عرصے میں مہاجرین کی تعداد سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی.
2000ء میں بین الاقوامی مہاجرین (مائیگرنٹس) کی تعدادساڑھے سترہ کروڑ ریکارڈ ہوئی جو پانچ برسوں میں بڑھ کر 24 کروڑ 40لاکھ تک پہنچ گئی.
دنیا کے دو تہائی مہاجرین یورپ یا ایشیا میں ہیں.
ہر دس میں سے ایک مہاجر کی عمر 15 برس سے کم ہے.
موجودہ دور میں ہجرت کی دوبڑی وجوہات ہیں.
جنگیں اور معاشی عدم توازن.
نائن الیون کے بعد افغانستان غیر مستحکم ہوا اور اس کے بعد مشرق وسطیٰ.
جنگیں یا خانہ جنگیاں عراق سے ہوتی ہوئی شام اور لیبیا تک پہنچیں، یمن بھی اس کی لپیٹ میں ہے.
فلسطین کب سے مقبوضہ ہے اور جنگوں کی وجہ بن چکا ہے.
افریقہ کے کئی ممالک میں خانہ جنگیاں اور غربت لوگوں کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ اپنی جان کی پروا کیے بغیر ترقی یافتہ ممالک کا رخ کریں.
اسی لیے ان دو خطوں سے ہجرت کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے.
ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں آمدنی اور سہولیات کی تفریق بھی اس کا ایک بڑا سبب ہے.
چار دسمبر 2000ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دنیا میں مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کو محسوس کرتے ہوئے 18 دسمبر کو مہاجرین کا عالمی دن قرار دیا.
1990ء میں اسی دن جنرل اسمبلی نے ایک کنونشن پر دستخط کیے.
اس کا مقصد مہاجر محنت کشوں اور ان کے اہل خانہ کا تحفظ تھا.
اس کی وجہ یہ ہے کہ مہاجر محنت کشوں کا زیادہ استحصال کیا جاتا ہے بالخصوص اس وقت جب ان کی حیثیت غیر قانونی ہوتی ہے.
انسانی حقوق کی رو سے ہجرت انسان کا حق ہے اور ایسا کرنے والے کو مکمل تحفظ حاصل ہونا چاہیے.
اس کے ثمرات سے ہر معاشرہ مستفید ہوا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا.
تاہم کوشش ہونی چاہیے کہ ایسے حالات پیدا نہ ہوں جن سے لوگوں کو مجبوراً ہجرت کرنا پڑے.

کوئی تبصرے نہیں:

آلودہ پانی پینے سے ہرسال 53ہزار پاکستانی مرتے ہیں، یونیسیف

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے کہا ہے کہ آلودہ پانی پینےسے ہر سال 53 ہزار پاکستانی بچے موت کی نیند سو جاتے ہیں، پانی میں آلودگی ہیضہ، ہیپ...