Atricles لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Atricles لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات، 14 دسمبر، 2017

ایک عورت جس کا خاوند بہت پیار کرتا تها

کسی جگہ ایک بوڑھی مگر سمجھدار اور دانا عورت رہتی تھی جس کا خاوند اُس سے بہت ہی پیار کرتا تھا۔
دونوں میں محبت اس قدر شدید تھی کہ اُسکا خاوند اُس کیلئے محبت بھری شاعری کرتا اور اُس کیلئے شعر کہتا تھا۔
عمر جتنی زیادہ ہورہی تھی،
باہمی محبت اور خوشی اُتنی ہی زیادہ بڑھ رہی تھی۔
اس عورت سے اُس کی خوشیوں بھری زندگی کا راز پوچھا گیا کہ.
آیا وہ بہت لذیز کھانا پکاتی ہے؟ یا اس کا خاوند اس کے حسن و جمال پر فریفتہ ہے؟
یا وہ بہت زیادہ بچے پیدا کرنے والی خاتون رہی ہے؟
یا پھر اس کی محبت کا کوئی اور راز ہے؟
عورت نے یوں جواب دیا:
خوشیوں بھری زندگی کے اسباب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات کے بعد خود عورت کے اپنے ہاتھوں میں ہیں۔
عورت چاہے تو وہ اپنے گھر کو جنت بنا سکتی ہے اور اگر چاہے تو جہنم بنا دے۔
مت سوچیئے کہ مال و دولت خوشیوں کا سبب ہے۔
تاریخ میں کتنی ہی مالدار عورتیں ایسی ہیں جن کے خاوند اُن سے کنارہ کش ہو گئے۔
نہ ہی بہت زیادہ بچے پیدا کرنے والی عورت ہونا کوئی بہت بڑی خوبی ہے۔
کئی عورتوں نے دس دس بچے جنے مگر وہ اپنے شوہروں سے کوئی خصوصی التفات و محبت نہ پا سکیں بلکہ نوبت طلاق تک جا پہنچی.
اچھا کھانا پکانا بھی کوئی خوبی نہیں ہے، سارا دن کچن میں کھانے پکانے کے باوجود بھی عورتیں خاوند کی شکایت کرتی نظر آتی ہیں.
تو پھر آپ ہی بتا دیں اس پُرسعادت اور مسرت بھری زندگی کا راز؟ اور آپ اپنے اورخاوند کے درمیان درپیش مسائل و مشکلات سے کس طرح نپٹا کرتی تھیں؟
اُس نے جواب دیا:
جس وقت میرا خاوند غصے میں آتا اور بلا شبہ میرا خاوند بہت ہی غصیلا آدمی تھا، میں اُن لمحات میں (نہایت ہی احترام کیساتھ) مکمل خاموشی اختیار کر لیا کرتی تھی۔
احترام کےساتھ خاموشی یعنی آنکھوں سے حقارت اور طنزیہ پن نہ جھلکے۔
آدمی بہت عقلمند ہوتا ہے ایسی صورتحال کو بھانپ لیتا ہے۔
تو آپ ایسے میں کمرے سے باہر کیوں نہیں چلی جایا کرتی تھیں؟
اُس نے کہا: خبردار ایسی حرکت مت کرنا، اس سے تو ایسا لگے گا، تم اُس سے فرار چاہتی ہو اور اُسکا نقطہ نظر نہیں جاننا چاہتی. خاموشی تو ضروری ہے ہی، اس کے ساتھ ساتھ خاوند جو کچھ کہے اُسے ناصرف سُننا بلکہ اُس سے اتفاق کرنا بھی اُتنا ہی اشد ضروری ہے۔
میرا خاوند جب اپنی باتیں پوری کر لیتا تو میں کمرے سے باہر چلی جاتی تھی، کیونکہ اس سارے شور، شرابے کے بعد میں سمجھتی تھی کہ اُسے آرام کی ضرورت ہے۔
میں اپنے روزمرہ کے گھریلو کاموں میں لگ جاتی، اور اپنے دماغ کو اُس جنگ سے دور رکھنے کی کوشش کرتی.
تو آپ اس ماحول میں کیا کرتی تھیں؟ کئی دنوں کیلئے لا تعلقی اور بول چال چھوڑ دینا وغیرہ؟
اُس نے کہا:
ہرگز نہیں، بول چال چھوڑ دینے کی عادت انتہائی گھٹیا اور خاوند سے تعلقات کو بگاڑنے کیلئے دورُخی تلوار کی مانند ہے۔
اگر تم خاوند سے بولنا چھوڑ دیتی ہو تو ہو سکتا ہے شروع میں اُس کیلئے یہ تکلیف دہ ہو۔
شروع میں وہ تم سے بولنے کی کوشش بھی کریگا۔
لیکن جس طرح دن گزرتے جائیں گے وہ اِس کا عادی ہوتا چلا جائے گا۔
تم ایک ہفتہ کیلئے بولنا چھوڑو گی تو اُس میں تم سے دو ہفتوں تک نہ بولنے کی استعداد پیدا ہو جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ وہ تمہارے بغیر بھی رہنا سیکھ لے۔
خاوند کو ایسی عادت ڈال دو کہ تمہارے بغیر اپنا دم بھی گھٹتا ہوا محسوس کرے گویا تم اُس کیلئے ہوا کی مانند ہو. گویا تم وہ پانی ہو جس کو پی کر وہ زندہ رہ رہا ہو۔
باد صبا بنو باد صرصر نہیں
اُس کے بعد آپ کیا کرتی تھیں؟
اُس عورت نے کہا:
میں دو یا دو سے کچھ زیادہ گھنٹوں کے بعد جوس یا پھر گرم چائے لے کر اُس کے پاس جاتی، اور اُسے نہایت سلیقے سے کہتی، لیجیئے چائے پیجیئے۔
مجھے یقین ہوتا تھا کہ وہ اس لمحے اس چائے یا جوس کا متمنی ہو گا.
میرا یہ عمل اور اپنے خاوند کے ساتھ گفتگو اسطرح ہوتی تھی کہ گویا ہمارے درمیان کوئی غصے یا لڑائی والی بات سرے سے ہوئی ہی نہیں۔
جبکہ اب میرا خاوند ہی مجھ سے اصرار کر کے بار بار پوچھ رہا ہوتا تھا کہ کیا میں اُس سے ناراض تو نہیں ہوں۔
میرا ہر بار اُسے یہی جواب ہوتا تھا کہ نہیں میں تو ہرگز ناراض نہیں ہوں۔
اسکے بعد وہ ہمیشہ اپنے درشت رویے کی معذرت کرتا اور مجھ سے گھنٹوں پیار بھری باتیں کرتا تھا۔
تو کیا آپ اُس کی ان پیار بھری باتوں پر یقین کر لیتی تھیں؟
ہاں، بالکل. میں جاہل نہیں ہوں۔
کہ میں اپنے خاوند کی اُن باتوں پر تو یقین کر لوں جو وہ مجھے غصے میں کہہ ڈالتا ہے اور اُن باتوں کا یقین نہ کروں جو وہ مجھے محبت اور پرسکون حالت میں کہتا ہے؟
تو پھر آپکی عزت نفس کہاں گئی؟
کیا عزت اسی کا نام ہے کہ تم غصے میں آئے ہوئے ایک شخص کی تلخ باتوں پر تو یقین کرکے اُسے اپنی عزت نفس کا مسئلہ بنا لومگر اُس کی اُن باتوں کو کوئی اہمیت نہ دو جو وہ تمہیں پیار بھرے اور پرسکون ماحول میں کہہ رہا ہو!
میں فوراً ہی اس غصے کی حالت میں دی ہوئی گالیوں اور تلخ و ترش باتوں کو بھلا کر اُنکی محبت بھری اور مفید باتوں کو غور سے سنتی تھی۔
جی ہاں، خوشگوار اور محبت بھری زندگی کا راز عورت کی عقل میں موجود ہے مگر یہ راز اُسکی زبان سے بندھا ہوا ہے.

پیر، 30 اکتوبر، 2017

نفس کے بندے


ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ تھا ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﭘﯿﺮ ﺗﮭﮯ - جن کے ﺑﮩﺖ ﭘﯿﺮﻭﮐﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﯾﺪ ﺗﮭﮯ ۔
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺧﻮﺵ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ پیر و ﻣﺮﺷﺪ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﻧﺼﯿﺐ ﺁﺩﻣﯽ ﮨﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻣﻌﺘﻘﺪﯾﻦ ﮐﯽ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﺍﺗﻨﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﮔﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ۔۔
ﻣﺮﺷﺪ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺻﺮﻑ ﮈﯾﮍﮪ ﺷﺨﺺ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﻋﻘﯿﺪﺕ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﺟﺎﮞ ﻧﺜﺎﺭﯼ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ، ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﻣﺎﻧﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻗﯽ ﮐﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﮨﯿﮟ ۔۔ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺑﮩﺖ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﯾﮧ ﭘﭽﺎﺱ ﮨﺰﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺻﺮﻑ ﮈﯾﮍﮪ ﮐﯿﺴﮯ کہہ رہے ہیں ۔ ﻣﺮﺷﺪ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻧﻔﺲ ﮐﺎ ﭨﯿﺴﭧ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﺐ ﺁﭖ ﮐﻮ ﭘﺘﺎ ﭼﻠﮯ ﮔﺎ ۔ ﺗﻮ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﭨﯿﻠﮧ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﭨﯿﻠﮧ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺁﭖ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﯾﮏ ﺟﮭﻮﻧﭙﮍﯼ ﺑﻨﻮﺍﺩﯾﮟ ﻓﻮﺭﺍً ﺭﺍﺕ ہی ﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﻮﺍ ﺩﯾﮟ - ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺟﮭﻮﻧﭙﮍﯼ ﺑﻨﻮﺍ ﺩﯼ ۔
ﺍﺱ ﺟﮭﻮﻧﭙﮍﯼ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺑﺰﺭﮒ ﻧﮯ ﺩﻭ ﺑﮑﺮﮮ ﺑﺎﻧﺪﮪ ﺩﯾﮯ - ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺩﻭ ﺑﮑﺮﮮ ﺑﺎﻧﺪﮬﮯ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ۔
ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﺟﮭﻮﻧﭙﮍﯼ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻼ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻧﭽﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎ ۔
ﮨﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺭﮮ ﻣﺮﯾﺪﯾﻦ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺟﻮ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﺟﺎﻥ ﭼﮭﮍﮐﺘﺎ ﮨﻮ ؟
ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﺩﻝ ﮐﯽ ﮔﮩﺮﺍﺋﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺎﻧﺘﺎ ﮨﻮ ؟  ﺍچھے برے ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﻮ ۔
ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺎﻧﮕﻮﮞ ﻭﮦ ﺩﮮ - ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺁﺋﮯ ۔
ﺍﺏ ﺍﺱ ﭘﭽﺎﺱ ﮨﺰﺍﺭ ﮐﮯ ﺟﻢ ﻏﻔﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ ﺍﭨﮭﺎ ، ﻭﮦ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﭼﻠﺘﺎ ﮨﻮﺍ ، ﮈﮬﯿﻠﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﯿﺎ۔۔ ﻣﺮﺷﺪ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺩﻡ ﺧﻢ ﮨﮯ ؟
ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ، ﮨﺎﮞ ﮨﮯ ۔
ﮐﮩﺎ ، ﺁ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ۔
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮐﻼﺋﯽ ﭘﮑﮍﯼ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺟﮭﮕﯽ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﺎﮞ ﮐﮭﮍﺍ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ۔ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮭﮍﺍ ﺭﮦ ۔
ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮑﺮﮮ ﮐﻮ ﻟﭩﺎﯾﺎ ، ﭼﮭﺮﯼ ﻧﮑﺎﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺫﺑﺢ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ، ﺟﮭﻮﻧﭙﮍﯼ ﮐﯽ ﻧﺎﻟﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ۔
ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺧﻮﻥ ﻧﮑﻼ ﺗﻮ ﭘﭽﺎﺱ ﮨﺰﺍﺭ ﮐﮯ ﮔﺮﻭﮦ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺧﻮﻥ ﺁﻟﻮﺩ ﭼﮭﺮﯼ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻼ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﺩﮮ ﺩﯼ ۔
ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﻮﺭﯼ ﻃﺮﺡ ﻣﻄﻤﺌﻦ ﮨﻮﮞ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﺎ ﻓﻌﻞ ﮐﯿﺎ۔ﺟﺐ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ۔
ﺍﺏ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻟﻮﮒ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﮐﮭﺴﮑﻨﮯ ﻟﮕﮯ ۔ ﮐﭽﮫ ﺟﻮﺗﯿﺎﮞ ﭘﮩﻦ ﮐﺮ ﮐﭽﮫ ﺟﻮﺗﯿﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ۔
ﺗﻮ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺍﮮ ﻟﻮﮔﻮ ! ﻗﻮﻝ ﮐﮯ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮧ ﺑﻨﻨﺎ ﺻﺮﻑ ﻣﻀﺒﻮﻃﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﺘﻘﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮭﮍﮮ ﺭﮨﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﻧﺎ ۔
ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﮮ ، ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺁﺋﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻧﻔﺲ ﮐﺎ ﭨﯿﺴﭧ ﮨﮯ ۔
ﺗﻮ ﺳﻨﺎﭨﺎ ﭼﮭﺎﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ۔ ﮐﻮﺋﯽ ﺁﮔﮯ ﻧﮧ ﺑﮍﮬﺎ ۔ ﺍﺱ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﯾﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮭﮍﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ !
" ﺍﮮ ﺁﻗﺎ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮﮞ " ۔
ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ، ﺑﯿﺒﯽ ﺁ ۔
ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻭﮦ ﺑﯿﺒﯽ ﭼﻠﺘﮯ ﭼﻠﺘﮯ ﺟﮭﮕﯽ ﻣﯿﮟ ﮔﺌﯽ ، ﺍﺱ ﺑﯿﭽﺎﺭﯼ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﯽ ﮨﻮﺍ ﺟﻮ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮﺍ ۔
ﺍﻧﺪﺭ ﺍﺳﮯ ﮐﮭﮍﺍ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﺑﮑﺮﺍ ﺫﺑﺢ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ، ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺮﻧﺎﻟﮯ ﺳﮯ ﺧﻮﻥ ﮐﮯ ﻓﻮﺍﺭﮮ ﭼﮭﻮﭨﮯ۔
ﺟﺐ ﯾﮧ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮨﻮ ﭼﮑﺎ ﺗﻮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺁﭖ ﺻﺤﯿﺢ ﮐﮩﺘﮯ ﺗﮭﮯ ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﺳﺎﺭﺍ ﺧﺎﻟﯽ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ۔
ﭘﭽﺎﺱ ﮨﺰﺍﺭ ﺁﺩﻣﯽ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ۔
ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺎﻧﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺻﺮﻑ ﮈﯾﮍﮪ ﺷﺨﺺ ﮨﮯ ، ﺟﻮ ﻣﺎﻧﺘﺎ ﮨﮯ ۔
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮨﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻣﺎﻥ ﮔﯿﺎ ، ﺍﻭﺭ ﺳﻤﺠﮫ ﺑﮭﯽ ﮔﯿﺎ ، ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﻣﺮﺩ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﭘﻮﺭﺍ ﺗﮭﺎ ۔ﺟﺐ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻋﻮﺭﺕ ﺟﻮ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ ﺁﺩﮬﯽ ﺗﮭﯽ ۔
ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺳﻼﻣﺖ ﯾﮧ ﻣﺮﺩ ﺁﺩﮬﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺭﺕ ﭘﻮﺭﯼ ﺗﮭﯽ ۔
ﭘﮩﻼ ﺟﻮ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻮﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ۔
ﺍﺱ ﺑﯿﺒﯽ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﻮ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮔﺰﺭﺍ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺍﭨﮫ ﮐﺮ ﺁﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻭﮦ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﺳﺎﻟﻢ Entity ﭘﺮ ﮨﮯ ۔ﺍﻭﺭ ﺁﺩﮬﺎ ﻭﮦ ﻣﺮﺩ ﮨﮯ ۔
ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺎﻧﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮈﯾﮍﮪ ﻟﻮﮒ ﮨﯿﮟ ﺑﺎﻗﯽ ﺳﺎﺭﮮ ﻧﻔﺲ ﮐﮯ ﺑﻨﺪﮮ ﮨﯿﮟ 

اتوار، 29 اکتوبر، 2017

مٹی سے سونا(حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ)


اﯾﮏ ﻏﺮﯾﺐ ﻋﻮﺭﺕ ﺣﻀﺮﺕ ﺑﺎﺑﺎ ﻓﺮﯾﺪ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﮔﻨﺞ ﺷﮑﺮ ﺭﺣﻤﺘﻪ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﯿﻪ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﻔﻠﺴﯽ ﮐﯽ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮐﯽ , ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯿﺎﮞ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﮐﻮ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺎﻝ ﺍﺳﺒﺎﺏ ﻧﻪ ﺗﮭﺎ۔ﺑﺎﺑﺎ ﺟﯽ ﻧﮯ ﺍﺳﮑﯽ ﺑﺎﺕ ﺳﻨﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺩﻋﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ۔ﻟﯿﮑﻦ ﻭﻩ ﻋﻮﺭﺕ ﺑﺎﺑﺎ ﺟﯽ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﻟﯿﻨﮯ ﭘﺮ ﺑﻀﺪ ﺭﻫﯽ۔ ﺑﺎﺑﺎ ﺟﯽ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ , ﺑﯽ ﺑﯽ ! ﺳﺐ ﺧﺰﺍﻧﮯ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﻪ ﮐﮯ ﻫﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺎﻧﮕﻮ, ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺧﻮﺩ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺍﺩﻧﯽ ﺳﺎ ﻏﻼﻡ ﻫﻮﮞ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﻩ ﻋﻮﺭﺕ ﺑﻮﻟﯽ, ﺁﭖ ﺍﻟﻠﻪ ﮐﮯ ﻧﯿﮏ ﺑﻨﺪﮮ ﻫﯿﮟ ﻣﯿﮟآﭖ ﮐﮯ ﺩﺭ ﺳﮯ ﺧﺎﻟﯽ ﻧﮭﯿﮟ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﯽ۔ﺁﺧﺮ ﺟﺐ ﺍﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﺍﺻﺮﺍﺭﺣﺪ ﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺑﺎﺑﺎ ﺟﯽ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ, ﺍﭼﮭﺎ ﺟﺎﺅ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﭩﯽ ﮐﺎ ﮈﮬﯿﻼ ﺗﻼﺵ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻻﺅ, ﻭﻩ ﻋﻮﺭﺕ ﻣﭩﯽ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﮈﮬﯿﻼ ﺍﭨﮭﺎ ﻻﺋﯽ, ﺑﺎﺑﺎﻓﺮﯾﺪ ﺭﺣﻤﺘﻪ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﯿﻪ ﻧﮯ ﺗﯿﻦ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺳﻮﺭﻩ ﺍﺧﻼﺹ ( ﻗﻞ ﻫﻮ ﺍﻟﻠﻪ ﺍﺣﺪ ) ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﻣﭩﯽ ﭘﺮ ﺩﻡ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﻪ ﮐﯽ ﻗﺪﺭﺕ ﺳﮯ ﻭﻩ ﻣﭩﯽ ﺳﻮﻧﺎ ﺑﻦ ﮔﺌﯽ۔ ﺁﭖ ﺭﺣﻤﺘﻪ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﯿﻪ ﻧﮯ ﻭﻩ ﺳﻮﻧﺎ ﺍﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﻫﻮﺋﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ،ﻟﻮ ﺑﯽ ﺑﯽ ! ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﭽﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺎ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﮐﺮﻭ۔ ﻭﻩ ﻋﻮﺭﺕ ﺷﮑﺮﯾﮧ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﺗﯽ ﻫﻮﺋﯽ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺳﻮﻧﺎ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻧﺴﺨﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻣﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﯿﺎ۔
ﮔﮭﺮﺟﺎ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﭩﯽ ﮐﮯ ﮐﺌﯽ ﮈﮬﯿﻠﮯ ﺍﮐﭩﮭﮯ ﮐﺌﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮ ﮐﻮ ﭘﺎﮎ ﺻﺎﻑ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺳﮯ ﻣﮩﮑﺎ ﺩﯾﺎ, ﻏﺴﻞ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﮎ ﺻﺎﻑ ﻟﺒﺎﺱ ﭘﮩﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﻤﻞ ﻣﯿﮟ ﺷﺪﺕ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺗﯿﻦ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺗﯿﻦ ﺳﻮ ﺑﺎﺭ ﺳﻮﺭﻩ ﺍﺧﻼﺹ ﭘﮍﮬﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﭩﯽ ﭘﺮ ﺩﻡ ﮐﯿﺎ, ﺍﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺁﻥ ﮐﯽ ﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﻣﭩﯽ, ﺳﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﺪﻝ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽﻟﯿﮑﻦ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﭽﮫ ﻧﻪ ﻫﻮﺍ۔ﺍﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﭘﺮ ﺟﻨﻮﻥ ﮐﯽ ﺳﯽ ﮐﯿﻔﯿﺖ ﺳﻮﺍﺭ ﻫﻮ ﮔﺌﯽ ﻭﻩ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﺳﻮﺭﻩ ﺍﺧﻼﺹ ﭘﮍﮬﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﭩﯽ ﭘﺮ ﺩﻡ ﮐﺮﺗﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﭩﯽ, ﻣﭩﯽ ﻫﯽ ﺭﻫﺘﯽ۔ ﻭﻩ ﺗﯿﻦ ﺩﻥ ﺗﮏ ﺳﻮﺭﻩ ﺍﺧﻼﺹﭘﮍﮬﺘﯽ ﺭﻫﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺳﺐ ﺑﮯ ﺳﻮﺩ ﺭﻫﺎ, ﺁﺧﺮ ﻭﻩ ﻣﭩﯽ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺑﺎﺑﺎ ﻓﺮﯾﺪ ﺭﺣﻤﺘﻪ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﯿﻪ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮ ﻫﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺷﮑﻮﻩ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻟﯽ, ﺁﭖ ﻧﮯ ﻧﻪ ﻭﺿﻮ ﮐﯿﺎ , ﻧﻪ ﻏﺴﻞ, ﻧﻪ ﻫﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﮐﺎ ﺍﮨﺘﻤﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﺑﺲ ﺗﯿﻦ ﺑﺎﺭ ﺳﻮﺭﻩ ﺍﺧﻼﺹ ﭘﮍﮬﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﭩﯽ ﺳﻮﻧﺎ ﺑﻦ ﮔﺌﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻏﺴﻞ ﮐﯿﺎ, ﺧﻮﺷﺒﻮ ﻟﮕﺎﺋﯽ, ﮔﮭﺮ ﮐﻮ ﭘﺎﮎ ﺻﺎﻑ ﮐﯿﺎ, ﺍﻭﺭ ﺗﯿﻦ ﺩﻥ ﺳﮯ ﺳﻮﺭﻩ ﺍﺧﻼﺹ ﭘﮍﮪ ﺭﻫﯽ ﻫﻮﮞ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﭩﯽ ﺳﻮﻧﺎ ﻧﮭﯿﮟ ﺑﻨﺘﯽ, ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﻋﻤﻞ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮐﻤﯽ ﻫﮯ ؟
ﺑﺎﺑﺎ ﻓﺮﯾﺪ ﺭﺣﻤﺘﻪ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﯿﻪ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﻧﻢ ﻫﻮ ﮔﺌﯿﮟ۔ ﺁﭖ ﺭﺣﻤﺘﻪ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﯿﻪ ﻧﮯ ﺳﺮ ﺟﮭﮑﺎ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯿﮕﮯ ﻫﻮﺋﮯ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ, ﺗﯿﺮﮮ ﻋﻤﻞ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﻤﯽ ﻧﮭﯿﮟ ﺗﮭﯽ, ﺑﺲ ﺗﯿﺮﮮ ﻣﻨﻪ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﯾﺪ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﻧﮭﯿﮟ تھی...ابن آدم

ہفتہ، 28 اکتوبر، 2017

بغداد کا نوجوان


بغداد میں ایک نوجوان تھا - وہ بہت خوبصورت تھا ، اور اس کا کام نعل سازی تھا - وہ نعل بناتا بھی تھا اور گھوڑے کے سموں پر چڑھاتا بھی تھا ۔
نعل بناتے وقت تپتی بھٹی میں سرخ شعلوں کے اندر وہ نعل رکھتا اور پھر آگ میں اسے کسی " جمور " یا کسی اوزار کے ساتھ نہیں پکڑتا تھا بلکہ آگ میں ہاتھ ڈال کے اس تپتے ہوئے شعلے جیسے نعل کو نکال لیتا اور اپنی مرضی کے مطابق اسے (shape) شکل دیتا تھا۔ 
لوگ اسے دیکھ کر دیوانہ کہتے اور حیران بھی ہوتے تھے کہ اس پر آگ کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔
وہاں موصل شہر کا ایک شخص آیا جب اس نے ماجرا دیکھا تو اس نے تجسس سے اس نوجوان سے پوچھا کہ اسے گرم گرم لوہا پکڑنے سے کیوں کچھ نہیں ہوتا ؟ 
اس نوجوان نے جواب دیا کہ وہ جلدی میں لوہے کو اٹھا لیتا ہے اور اب اس پر ایسی کیفیت طاری ہو گئی ہے کہ میرا ہاتھ اسے برداشت کرنے کا عادی ہوگیا ہے ۔ 
اور اسے کسی جمور یا پلاس کی ضرورت نہیں پڑتی ۔
اس شخص نے کہا کہ میں اس بات کو نہیں مانتا " یہ تو کوئی اور ہی بات ہے ۔ "
اس نے نوجوان سے کہا کہ مجھے اس کی حقیقت بتاؤ ؟ 
اس نوجوان نے بتایا کہ بغداد میں ایک نہایت حسین و جمیل لڑکی تھی اور اس کے والدین عمرے کے لیے گئے ، اور کسی حادثے کا شکار ہو کے وہ دونوں فوت ہو گئے - اور یہ لڑکی بے یار و مددگار اس شہر میں رہنے لگی ۔
وہ لڑکی پردے کی پلی ہوئی ، گھر کے اندر رہنے والی لڑکی تھی اب اس کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ زندگی کیسے گزارے ۔
آخر کار نہایت غمزدہ اور پریشانی کی حالت میں وہ باہر سڑک پر نکل آئی ۔ 
اس نے میرے دروازے پر دستک دی اور کہا " کیا ٹھنڈا پانی مل سکتا ہے " 
میں نے کہا ہاں اور اندر سے اس لڑکی کو ٹھنڈا پانی لا کر پلایا اور اس لڑکی نے کہا خدا تمہارا بھلا کرے ۔ 
میں نے اس سے پوچھا کیا تم نے کچھ کھایا بھی ہے کہ نہیں ؟ 
اس لڑکی نے کہا نہیں میں نے کچھ نہیں کھایا ۔
میں نے اس سے اکیلے اس طرح پھرنے کی وجہ پوچھی تو اس لڑکی نے اپنے اوپر گزرا سارا واقعہ سنایا اور کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی میں زندگی کیسے بسر کروں ۔ 
میں نے اس سے کہا کہ تم شام کو یہیں میرے گھر آجانا اور میرے ساتھ کھانا کھانا - میں تمھیں تمہاری پسند کا ڈنر کھلاونگا وہ لڑکی چلی گئی ۔ 
اس نوجوان نے بتایا کہ میں نے اس کے لیے کباب اور بہت اچھی اچھی چیزیں تیار کیں وہ شام کے وقت میرے گھر آگئی اور میں نے کھانا اس کے آگے چن دیا ۔
جب اس لڑکی نے کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو میں نے دروازے کی چٹخنی چڑھا دی اور میری نیت بدل گئی کیوں کہ وہ انتہا درجے کا ایک آسان موقع تھا - جو میری دسترس میں تھا ۔
جب میں نے دروازے کی چٹخنی چڑہائی تو اس لڑکی نے پلٹ کر دیکھا اور اس نے کہا کہ میں بہت مایوس اور قریب المرگ اور اس دنیا سے گزر جانے والی ہوں ۔ 
اس نے مزید کہا " اے میرے پیارے بھائی تو مجھے خدا کے نام پر چھوڑ دے "۔ 
وہ نوجوان کہنے لگا میرے سر پر برائی کا بھوت سوار تھا - میں نے اس سے کہا کہ ایسا موقع مجھے کبھی نہیں ملے گا میں تمھیں نہیں چھوڑ سکتا ۔
اس لڑکی نے مجھے کہا کہ " میں تمھیں خدا اور اس کے رسول کے نام پردرخواست کرتی ہوں کہ میرے پاس سوائے میری عزت کے کچھ نہیں ہے اورایسا نہ ہو کہ میری عزت بھی پامال ہو جائے اور میرے پاس کچھ بھی نہ بچے اور پھر اس حالت میں اگر میں زندہ بھی رہوں تو مردوں ہی کی طرح جیئوں "۔ 
اس نوجوان نے بتایا کہ لڑکی کی یہ بات سن کرمجھ پر خدا جانے کیا اثر ہوا ، میں نے دروازے کی چٹخنی کھولی اور دست بستہ اس کے سامنے کھڑا ہوگیا اور کہا کہ " مجھے معاف کر دینا میرے اوپر ایک ایسی کیفیت گزری تھی جس میں میں نبرد آزما نہیں ہو سکا تھا لیکن اب وہ کیفیت دور ہو گئی ہے تم شوق سے کھانا کھاؤ اور اب سے تم میری بہن ہو  "۔ 
یہ سن کر اس لڑکی نے کہا کہ 
" اے الله میرے اس بھائی پر دوزخ کی آگ حرام کر دے ۔ " 
یہ کہ کر وہ رونے لگی اور اونچی آواز میں روتے ہوئی کہنے لگی کہ 
" اے الله نہ صرف دوزخ کی آگ حرام کر دے بلکہ اس پر ہر طرح کی آگ حرام کر دے ۔ " 
نوجوان نے بتایا کہ لڑکی یہ دعا دے کر چلی گئی - ایک دن میرے پاس زنبور (جمور) نہیں تھا اور میں دھونکنی چلا کر نعل گرم کر رہا تھا میں نے زنبور پکڑنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو وہ دہکتے ہوئے کوئلوں میں چلا گیا لیکن میرے ہاتھ پر آگ کا کوئی اثر نہ ہوا ۔ 
میں حیران ہوا اور پھر مجھے اس لڑکی کی وہ دعا یاد آئی اور تب سے لے کر اب تک میں اس دہکتی ہوئی آگ کو آگ نہیں سمجھتا ہوں بلکہ اس میں سے جو چاہے بغیر کسی ڈر کے نکال لیتا ہوں  ۔

جمعہ، 27 اکتوبر، 2017

مہمان کا رزق


ﺍﯾﮏ ﮔﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﭽﮫ ﺍﻥ ﺑﻦ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔ ﺍﺑﮭﯽ ﺟﮭﮕﮍﺍ ﺧﺘﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺳﯽ ﺍﺛﻨﺎﺀ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﺁ ﮔﯿﺎ۔ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺑﯿﭩﮭﮏ ﻣﯿﮟ ﺑﭩﮭﺎ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﻮﯼ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻓﻼﮞ ﺭﺷﺘﮧ ﺩﺍﺭ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺑﻨﺎﺅ۔ﻭﮦ ﻏﺼّﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻟﺌﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮨﮯ ﻧﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ۔ﻭﮦ ﺑﮍﺍ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻟﮍﺍﺋﯽ ﺗﻮ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺍﭘﻨﯽ ﮨﮯ،ﺍﮔﺮ ﺭﺷﺘﮧ ﺩﺍﺭ ﮐﻮ ﭘﺘﮧ ﭼﻞ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺧﻮﺍﮦ ﻣﺨﻮﺍﮦ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮨﻮ ﮔﯽ۔ﻟﮩٰﺬﺍ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺁﮐﺮ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﯿﺎ۔
ﺍﺗﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﺧﯿﺎﻝ ﺁﯾﺎ ﮐﮧ ﭼﻠﻮ ﺑﯿﻮﯼ ﺍﮔﺮ ﺭﻭﭨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮑﺎﺗﯽ ﺗﻮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﻤﺴﺎﺋﮯ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﮯ ﮨﯿﮟ،ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﻭﺍﻟﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ،ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﮐﺎ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﭘﮑﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﮩﮧ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ۔ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﯽ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﺧﺮﺍﺏ ﮨﮯ ﻟﮩٰﺬﺍ ﺁﭖ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺠﺌﮯ۔ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﺎ،ﺟﺘﻨﮯ ﺁﺩﻣﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﮩﯿﮟ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ﻭﮦ ﻣﻄﻤﺌﮟ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﮐﻮ ﮐﻢ ﺍﺯ ﮐﻢ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺗﻮ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻋﺰﺕ ﺑﮭﯽ ﺑﭻ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ۔
ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﺫﺭﺍ ﭨﮭﻨﮉﺍ ﭘﺎﻧﯽ ﺗﻮﻻ ﺩﯾﺠﺌﮯ۔ ﻭﮦ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﮧ ﮔﮭﮍﮮ ﮐﺎ ﭨﮭﻨﮉﺍ ﭘﺎﻧﯽ ﻻﺗﺎ ﮨﻮﮞ۔ﺍﻧﺪﺭ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺑﯿﻮﯼ ﺻﺎﺣﺒﮧ ﺗﻮ ﺯﺍﺭ ﻭ ﻗﻄﺎﺭ ﺭﻭ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔ ﻭﮦ ﺑﮍﺍ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﺍﮐﮧ ﯾﮧ ﺷﯿﺮﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺁﻧﺴﻮ۔ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ؟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺭﻭﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯽ : ﺑﺲ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ۔ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻭﺟﮧ ﺿﺮﻭﺭ ﺑﻨﯽ ﮨﮯ۔ﺍﺱ ﺑﭽﺎﺭﮮ ﻧﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﭼﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﯽ ﺑﺨﺖ ﺟﺎﮒ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﮧ ﺑﺘﺎﺅ ﺗﻮ ﺳﮩﯽ ﮐﮧ ﮐﯿﻮﮞ ﺭﻭ ﺭﮨﯽ ﮨﻮ؟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﺎﺕ ﺳﻨﺎﺅﮞ ﮔﯽ۔ﺧﯿﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﮧ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺟﻮ ﻟﮍﺍﺋﯽ ﺟﮭﮕﮍﺍ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻭﮦ ﺩﻝ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮨﮯ۔
ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯽ : ﮐﮧ ﺟﺐ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺁﮐﺮ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﮧ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﻧﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻟﺌﮯ ﮐﭽﮫ ﭘﮑﮯ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ،ﭼﻠﻮ ﭼﮭﭩﯽ ﮐﺮﻭ ﺗﻮ ﺁﭖ ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ ۔ﻣﮕﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ ﻟﮍﺍﺋﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﯽ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﺭﺷﺘﮧ ﺩﺍﺭ ﮨﮯ،ﮨﻤﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﯾﮧ ﭘﻮﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﻮﻟﻨﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ۔ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻣﯿﮟ ﺍُﭨﮭﯽ ﮐﮧ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺑﻨﺎﺗﯽ ﮨﻮﮞ۔ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﻦ ‏( ﺑﺎﺭﻭﭼﯽ ﺧﺎﻧﮧ ‏) ﻣﯿﮟ ﮔﺌﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺟﺲ ﺑﻮﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺁﭨﺎ ﭘﮍﺍ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ،ﺍﯾﮏ ﺳﻔﯿﺪ ﺭﯾﺶ ﺁﺩﻣﯽ ﺍﺱ ﺑﻮﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺁﺗﺎ ﻧﮑﺎﻝ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﻣﻨﻈﺮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺳﮩﻢ ﮔﺌﯽ۔ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ : ﺍﮮ ﺧﺎﺗﻮﻥ ! ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﻧﮧ ﮨﻮ ﯾﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﮐﺎ ﺣﺼّﮧ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺁﭨﮯ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﺗﮭﺎ۔ﺍﺏ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﮨﻤﺴﺎﺋﮯ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﭘﮑﻨﺎ ﮨﮯ،ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﻭﮨﯽ ﺁﭨﺎ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺁﯾﺎ ﮨﻮﮞ۔
٭ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺭﺯﻕ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﮭﯿﺞ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔

بدھ، 11 مئی، 2016

دھوپ بہت کاٹے گی جب شجر کٹ جائیگا

بہت عرصہ مجھے اس راز کا پتہ ہی نہ چل سکا کہ ماں کو میرے آنے کی خبر کیسے ہو جاتی ہے۔ میں سکول سے آتا تو دستک دینے سے پہلے دروازہ کھل جاتا۔ کالج سے آتا تو دروازے کے قریب پہنچتے ہی ماں کا خوشی سے دمکتا چہرہ نظر آ جاتا۔
وہ پیار بھری مسکراہٹ سے میرا استقبال کرتی، دعائیں دیتی اور پھر میں صحن میں اینٹوں سے بنے چولہے کے قریب بیٹھ جاتا۔
ماں گرما گرم روٹی بناتی اور میں مزے سے کھاتا ۔
جب میرا پسندیدہ کھانا پکا ہوتا تو ماں کہتی چلو مقابلہ کریں۔
یہ مقابلہ بہت دلچسپ ہوتا تھا۔
ماں روٹی چنگیر میں رکھتی اور کہتی اب دیکھتے ہیں کہ پہلے میں دوسری روٹی پکاتی ہوں یا تم اسے ختم کرتے ہو۔ ماں کچھ اس طرح روٹی پکاتی ... ادھر آخری نوالہ میرے منہ میں جاتا اور ادھر تازہ تازہ اور گرما گرم روٹی توے سے اتر کر میری پلیٹ میں آجاتی۔
یوں میں تین چار روٹیاں کھا جاتا۔
لیکن مجھے کبھی سمجھ نہ آئی کہ فتح کس کی ہوئی!
ہمارے گھر کے کچھ اصول تھے۔ سب ان پر عمل کرتے تھے۔
ہمیں سورج غروب ہونے کے بعد گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن تعلیم مکمل کرنے کے بعد مجھے لاھور میں ایک اخبار میں ملازمت ایسی ملی کہ میں رات گئے گھر آتا تھا۔
ماں کا مگر وہ ہی معمول رہا۔
میں فجر کے وقت بھی اگر گھر آیا تو دروازہ خود کھولنے کی ضرورت کبھی نہ پڑی۔
لیٹ ہو جانے پر کوشش ہوتی تھی کہ میں خاموشی سے دروازہ کھول لوں تاکہ ماں کی نیند خراب نہ ہو لیکن میں ادھر چابی جیب سے نکالتا، ادھر دروازہ کھل جاتا۔
میں ماں سے پوچھتا تھا.... آپ کو کیسے پتہ چل جاتا ہے کہ میں آ گیا ہوں؟
وہ ہنس کے کہتی مجھے تیری خوشبو آ جاتی ہے۔
پھر ایک دن ماں دنیا سے چلی گئی !
ماں کی وفات کے بعد ایک دفعہ میں گھر لیٹ پہنچا، بہت دیر تک دروازے کے پاس کھڑا رہا، پھر ہمت کر کے آہستہ سے دروازہ کھٹکٹایا۔ کچھ دیر انتظار کیا اور جواب نہ ملنے پر دوبارہ دستک دی۔ پھر گلی میں دروازے کے قریب اینٹوں سے بنی دہلیز پر بیٹھ گیا۔
سوچوں میں گم نجانے میں کب تک دروازے کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا رہا اور پتہ نہیں میری آنکھ کب لگی۔ بس اتنا یاد ہے کہ مسجد سےاذان سنائی دی، کچھ دیر بعد سامنے والے گھر سے امّی کی سہیلی نے دروازہ کھولا۔ وہ تڑپ کر باہر آئیں۔
انہوں نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور بولی پتر! تیری ماں گلی کی جانب کھلنے والی تمہارے کمرے کی کھڑکی سے گھنٹوں جھانکتی رہتی تھی۔ ادھر تو گلی میں قدم رکھتا تھا اور ادھر وہ بھاگم بھاگ نیچے آ جاتی تھیں۔
وہ بولی پتر تیرے لیٹ آنے، رات گئے کچن میں برتنوں کی آوازوں اور شور کی وجہ سے تیری بھابی بڑی بڑ بڑ کیا کرتی تھی کیونکہ ان کی نیند خراب ہوتی تھی۔
پھر انہوں نے آبدیدہ نظروں سے کھڑکی کی طرف دیکھا اور بولیں "پتر ھن اے کھڑکی کدے نیئں کھلنی"۔
کچھ عرصہ بعد میں لاھور سے اسلام آباد آ گیا جہاں میں گیارہ سال سے مقیم ہوں۔
سال میں ایک دو دفعہ میں لاھور جاتا ہوں۔
میرے کمرے کی وہ کھڑکی اب بھی وہاں موجود ہے۔
لیکن ماں کا وہ مسکراہٹ بھرا چہرہ مجھے کبھی نظر نہیں آیا۔
ماں باپ کے سایہ کی  بے قدری مت کر اے نادان

دھوپ بہت کاٹے گی جب شجر کٹ جائیگا
تحرير- نا.معلوم


اتوار، 8 مئی، 2016

ماں کی محبت اور طاقت پر ايک خوبصورت حکايت

سمندرکِنارےایک درخت تھا جس پہ چڑیا کا گھونسلا تھا ایک دن تیز ہوا چلی تو چڑیا کا بچہ سمندر میں گرگیا چڑیا بچے کو نکالنے لگی تو اُسکے اپنے پر گیلے ہوگئے اور وہ لڑکھڑا گئی.
اُس نے سمندر سے کہا اپنی لہر سے میرا بچہ باہر پھنک دے مگر سمندر نہ مانا تو چڑیابولی دیکھ میں تیرا سارا پانی پی جاوُں گی تجھے ریگستان بنا دونگی.
سمندراپنے غرور میں گرجا کہ اے چڑیا میں چاہوں تو ساری دنیا کو غرق کردوں تو تو میرا کیا بگاڑ سکتی ہے؟
چڑیا نے اتنا سُنا تو بولی چل پھرخشک ہونے کو تیار ہوجا اسی کےساتھ اُس نےایک گھونٹ بھرا اُوراڑ کےدرخت پہ بیٹھی پھرآئی گھونٹ بھراپھردرخت پہ بیٹھی یہی عمل اُس نے7-8 بار دُھرایا تو سمندر گھبرا کے بولا:
پاگل ہوگئی ہےکیا کیوں مجھےختم کرنےلگی ہے ؟
مگرچڑیااپنی دھن میں یہ عمل دُھراتی رہی ابھی صرف 22-25 بارہی ہوا کہ سمندرنےایک زور کی لہرماری اورچڑیا کے بچے کو باہر پھینک دیا.
درخت جو کافی دیر سے یہ سب دیکھ رہا تھا سمندرسےبولا اے طاقت کےبادشاہ تو جو ساری دُنیا کو پل بھر میں غرق کر سکتا ہےاس کمزور سی چڑیا سےڈرگیا یہ سمجھ نہیں آئی ؟
سمندربولا تو کیا سجھا میں جو تجھےایک پل میں اُکھاڑ سکتاہوں اک پل میں دُنیا تباہ کرسکتا ہوں اس چڑیاسے ڈرونگا؟
نہیں میں تواس ایک ماں سےڈرا ہوں ماں کےجذبے سے ڈرا ہوں اک ماں کے سامنے توعرش ہل جاتا ہے تو میری کیا مجال.
جس طرح وہ مجھےپی رہی تھی مجھےلگا کہ وہ مجھےریگستان بنا ہی دےگی.
ماں " اللہ پاک " کی سب سے عظیمنعمت ہے.
اس کی قدر کریں اللہ پاک سے دعاء ہے کہ وہ ھمیںاپنے والدین کی خدمت کی توفیقعطاء فرمائے.آمین

جمعرات، 5 مئی، 2016

’’جب جنرل مشرف نے مجھے باحجاب دیکھا‘‘


’’جب جنرل مشرف نے مجھے باحجاب دیکھا‘‘ 
تو کیا ۔۔۔۔۔۔۔ کیا ؟؟
’’میں نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی، وہاں حجاب لباس کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ سو شروع ہی سے حجاب لیا. ہاں! شعوری طور پر حجاب کی سمجھ آج سے پندرہ سال پہلے آئی جب خود قرآن کو اپنی آنکھوں سے پڑھنا اورسمجھنا شروع کیا. ہم جس ماحول میں پروان چڑھے وہاں حیا اور حجاب ہماری گھٹیوں میں ڈالا گیا تھا۔ سو الحمدللہ! کبھی حجاب بوجھ نہیں لگا. حجاب کی وجہ سے کبھی کوئی پریشانی یا رکاوٹ نہیں آئی بلکہ میرا تجربہ قران کی اس آیت کے مترادف رہا 
’’تم پہچان لی جائو اور ستائی نہ جائو‘‘
الحمدللہ! حجاب نے میری راہ میں کبھی کوئی مشکل نہیں کھڑی کی بلکہ میں نے اس کی بدولت ہرجگہ عزت اور احترام پایا. اک واقعہ سنانا چاہوں گی، پرویز مشرف دور میں پاک فوج کی ’ایکسپو ایکسپو2001‘ منعقد ہوئی تھی، یہ ایک بڑی گیدرنگ تھی۔ اس کی تقریب میں واحد باحجاب میں ہی تھی، کچھ خواتین ( آفیسرز کی بیگمات ) نے اشاروں کنایوں میں احساس دلایا کہ ایسی جگہوں پر حجاب کی کیا ضرورت!! میں مسکرادی، کچھ دیر میں جنرل مشرف خواتین سے سلام کرنے لگے، خواتین جاتیں، ان سے ہاتھ ملاتیں، ان کے ساتھ لگ لگ کر تصاویر بناتیں.. میں کچھ اندر سےگھبرائی ہوئی تھی، اسی اثنامیں جنرل مشرف میری جانب مڑے، مجھے حجاب میں دیکھا تو اپنے دونوں ہاتھ کمر پر باندھ لیے اور جاپانیوں کے طریقہ سلام کی طرح تین بار سر جھکا کر سلام کیا۔ خواتین کا مجمع میری جانب حیرت سے تک رہا تھا... میری آنکھوں میں نمی اور فضاوں میں میرے رب کی گونج سنائی دے رہی تھی...
’’تاکہ تم پہچان لی جائو اور ستائی نہ جائو..‘
منجانب  ☆
( معروف بلاگر، شاعرہ، ناول نگار اسریٰ غوری حجاب کے بارے میں  اپنے احساسات )

اتوار، 17 اپریل، 2016

معاشرے کی عکاسی

"بچہ بھوکا ہےصاب،، کچھ دے دو" 
گود میں بچہ اٹھائے ہوئے ایک نوجوان عورت ہاتھ پھیلا کر بھیک مانگ رہی تھی ۔ 
"اس کا باپ کون ہے؟ ..... پال نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو؟" 
سیٹھ جھنجلا کر بولا. 
عورت خاموش رہی. 
سیٹھ نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا. 
اس کے میلے کپڑے اور پھٹے ہوئے تھے ۔
لیکن تھی وہ خوبصورت اور سڈول، نین نقش اچھے تھے. 
سیٹھ نے کہا: 
" میرے گودام میں کام کرے گی؟ کھانے کو بھی ملے گا اور پیسہ بھی" 
بھکارن سیٹھ کو ٹک ٹک دیکھتی رہی.. 
سیٹھ نے کہا: 
"فکر نہ کر، بہت پیسے ملیں گے.
" عورت نے پوچھا: 
"سیٹھ تیرا نام کیا ہے؟" 
سیٹھ: "نام......... تجھے نام سے کیا غرض ....؟" 
عورت: 
"جب دوسرے بچے کے لیئے بھیک مانگوں گی تو لوگ اس کے باپ کا نام پوچھیں گے.

ہفتہ، 9 اپریل، 2016

آزادی اور حسد

کسی جنگل میں ایک کوا رہتا تھا۔ کوا اپنی زندگی سے بڑا مطمئن اور خوش باش تھا۔ ایک دن کوے نے پانی میں تیرتے سفید ہنس کو دیکھا۔ کوا ہنس کے دودھ جیسے سفید رنگ اور خوبصورتی سے بڑا متاثر هوا اور سوچنے لگا کہ یہ ہنس تو یقینا'' دنیا کا خوبصورت ترین اور خوش ترین پرندہ ہوگا۔اس کے مقابلے میں میں کتنا کالا کلوٹا ہوں۔
کوے نے جب یہی بات ہنس سے کی تو ہنس بولا کہ میں بھی اپنے آپ کو دنیا کا خوبصورت اور خوش قسمت ترین پرندہ سمجھتا تھا لیکن جب میں نے طوطے کو دیکھا تو مجھے اس پر رشک آیا کہ اس کو د...و خوبصورت رنگوں سے نوازا گیا ہے۔
میرے خیال میں تو طوطا دنیا کا سب سے خوبصورت پرندہ ہے۔
کوا یہ سب سن کر طوطے کے پاس پہنچا۔جب اس نے یہی بات طوطے سے کہی تو طوطا بولا۔'' میں بھی بڑا خوش باش اور اپنی زندگی اورخوبصورتی سے بْڑا مطمئن تھا لیکن جب سے میں نے مور کو دیکھا ہے میرا سارا سكون اور خوشی غارت ہو گئ ہے۔ مور کو تو قدرت نے بے شمار ْخوب صورت رنگوں سے نوازا ہے،
۔''
کوا مور کو ڈھونڈتے ہوئ چڑیا گھر پہنچ گیا جہاں مور ایک پنجرے میں قید تھا اور سینکڑوں لوگ اسے دیکھنے کے لئے جمع تھے۔ شام کو جب زرا لوگوں کی بھیڑ چھٹی تو کوا مور کے پاس پہنچا اور بولا، '' پیارے مور، تم کس قدر خوبصورت ہو۔ تمہارا ایک ایک رنگ کتنا خوبصورت ہے۔ روزانہ ہزاروں لوگ تمہیں دیکھنے آتے ہیں اور ایک میں ہوں کہ مجھے دیکھتے ہی شو شو کر کے مجھے بھگا دیتے ہیں۔ تم یقینا'' دنیا کے خوبصورت اور خوش قسمت ترین پرندے ہو۔ تم کتنے خوش ہوگے۔ ''
مور بولا۔ '' ہاں میں بھی خود کو دنیا کا سب سے حسین پرندہ سمجھتا تھا لیکن ایک دن اسی خوبصورتی کی وجہ سے مجھے پکڑ کر اس پنجرے میں قید کرلیا گیا۔ جب میں اس چڑیا گھر کا جائزہ لیتا ہوں تو ایک کوا ہی ایسا پرندہ ہے جسے پنجرے میں نہیں رکھا گیا ہے۔ اب پچھلے کچھ دنوں سے میں سوچتا ہوں کہ کاش میں ایک کوا ہوتا اور آزادی سے جنگلوں میں اڑتا گھومتا پھرتا۔''
بالکل یہی مسئلہ ہمارا بھی ہے۔ ہم ہر وقت غیر ضروری طور پر دوسروں کے ساتھ اپنا موازنہ کرتے رہتے ہیں۔۔ اللہ پاک نے ہمیں جن نعمتوں اور صلاحیتوں سے نوازا ہے ان کی قدر نہیں کرتے اور ہر وقت شکائتیں کرتے رہتے ہیں۔ یہی نا شکری ہم سے ہماری خوشی و شادمانی چھین لیتی ہے۔ ایک کے بعد ایک غم اور اداسی ہم کو گھیر لیتی ہے۔
اللہ کی دی ہوئ نعمتوں کی قدر کیجئے۔ فضول میں اپنا موازنہ دوسروں سے نہ کیجئے۔یہی خوشی اور سکون کا راز ہے۔!!

جمعرات، 8 اکتوبر، 2015

'رومن اردو' کا آغاز کب اور کیوں ہوا؟

آج سے پندرہ بیس سال پہلے اگر کوئی غلط اردو بولتا تھا تو کہا جاتا تھا کہ وہ ’گلابی اردو‘ بولتا ہے۔ گلابی اردو بولنے والے عموماً اردو میں انگریزی کی آمیزش زیادہ کرتے تھے، یعنی ان کا ہر جملہ مکمل اردو یا انگریزی میں ہونے کے بجائے مکس شدہ ہوتا تھا جس کا واحد مقصد دوسرے پر اپنی انگریزی دانی کا رعب ڈالنا ہوتا تھا۔

وہ زمانہ گزر گیا۔ اب جبکہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور ہر شخص اپنی پسند کے موضوعات پر اپنی رائے کا اظہار زیادہ آسانی سے کر رہا ہے تو یہاں ہمیں گلابی اردو کی جگہ ’رومن اردو‘ نے آگھیرا ہے۔

گذشتہ بارہ پندرہ سالوں میں انٹرنیٹ اور موبائل کے سستے اور عام آدمی کی قوت خرید تک ہونے کی وجہ سے یہ اب عام ہوتی جا رہی ہے، جبکہ پاکستان کے خواص میں یہ بہت پہلے سے مقبول تھی۔ کہا جاتا ہے کہ رومن اردو کی ابتداء فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں شروع ہوئی۔ چونکہ جنرل ایوب اردو رسم الخط پڑھ نہیں سکتے تھے، اس لیے ان کی تقریر رومن اردو میں ٹائپ کی جاتی تھی۔ اسی طرح کی بات سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے لیے بھی مشہور ہے۔ اس کے علاوہ حال ہی میں پی پی کے چیئرمین جناب بلاول بھٹو زرداری کے کراچی کے جلسے کی تقریر کے بارے میں بھی میڈیا میں یہ اطلاعات نشر ہوئیں کہ ان کو بھی تمام تقریر ’رومن اردو‘ میں پیش کی گئی۔

پاکستان میں جب انٹرنیٹ سستا ہوا اور عوام الناس نے اس کا عام استعمال شروع کیا تو چونکہ اس وقت محدود ٹیکنالوجی کی وجہ سے کمپیوٹر میں اردو سپورٹ موجود نہیں تھی، اس لیے رومن اردو استعمال کی جانے لگی۔ پہلے پہلے تو چیٹ روم میں چیٹنگ کے لیے رومن اردو کا استعمال شروع ہوا، اور بعد میں مختلف ویب فورمز میں رومن اردو میں پوسٹ عام ہونے لگی۔ لیکن جب فیس بک، اسکائپ، سنیپ چیٹ، ٹوئٹر، واٹس ایپ یا دیگر سوشل میڈیا سائٹس پر پاکستانیوں کا رش ہونا شروع ہوا تو اس وقت رومن اردو کا استعمال بہت تیزی سے بڑھنے لگا۔

شروع شروع میں مختلف آپریٹنگ سسٹم اردو کو سپورٹ نہیں کرتے تھے جس کی وجہ سے کمپیوٹر میں اردو زبان انسٹال کرنا کافی مشکل عمل تھا۔ اس کے علاوہ ہمارے ہاں عام تعلیمی اداروں میں اردو ٹائپنگ (اردو کمپیوزنگ) سکھائی نہیں جاتی جبکہ انگریزی ٹائپنگ نوکری کے لیے لازمی تصور کی جاتی ہے۔ اس لیے طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد باقاعدہ طور پر انگریزی ٹائپنگ سیکھتی ہے۔

ایک اور وجہ یہ ہے کہ یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے بھی انگریزی زبان میں اپنے خیالات لکھنے کی صلاحیت پر عبور نہیں رکھتے، جس کی وجہ سے وہ اپنے اردو خیالات کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کے بجائے اس کو رومن اردو میں تحریرکرنے پر ترجیح دینے لگے۔

بعض ماہرین کے مطابق ہم لوگ بطورِ قوم انگریزی زبان سے مرعوب ہیں اور ہمیں شدید احساس کمتری ہے کہ ہمیں انگریزی زبان نہیں آتی، حالانکہ ہمیں چینی زبان نہیں آتی، جرمن نہیں آتی، فرانسیسی نہیں آتی، ہمیں کبھی اس پر شرمندگی نہیں ہوئی، لیکن انگریزی نہ آنے پر ہم خود کو کمتر سمجھتے ہیں۔

رومن اردو ٹائپ کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد اپنی سستی کی وجہ سے نہ تو انگریزی زبان میں مہارت حاصل کرتی ہے، اور نہ ہی اردو ٹائپنگ سیکھنے کی کوشش کرتی ہے کیونکہ وہ خیال کرتے ہیں کہ اردو ٹائپ کرنے سے ان کا علمی رعب باقی نہیں رہے گا۔ رومن اردو میں لکھنے سے ہمارا کچھ نہ کچھ بھرم تو قائم رہے۔

رومن اردو کے اصول

جس طرح ایک ہندوستانی فلم میں سلمان خان کا ڈائیلاگ ”مجھ پر ایک احسان کرنا کہ مجھ پر کوئی احسان نہ کرنا“ مشہور ہے، اسی طرح رومن اردو لکھنے کا اصول یہ ہے کہ اس کا کوئی اصول نہیں ہے۔

کیونکہ رومن اردو کوئی باقاعدہ تسلیم شدہ رسم الخط نہیں ہے، اس لیے نہ ہی اس کے کوئی قواعد و ضوابط ہیں، اور نہ ہی اس کی تعلیم کے لیے کوئی ادارہ موجود ہے۔ جس شخص کی جو مرضی ہو۔ اس کے دل کو جو ہجے بہتر لگیں، وہ وہی تحریر کرتا ہے (چاہے وہ سامنے والے شخص کی سمجھ سے باہر ہی کیوں نہ ہو)۔ انگریزی یا دیگر زبانوں کا کوئی لفظ آپ کو سمجھ نہ آئے تو آپ گوگل سے مدد لے سکتے ہیں لیکن رومن اردو کے مواد میں مدد کا صرف ایک ہی حل ہے، اور وہ یہ کہ جس نے تحریر کیا اس کو فون کر کے پوچھا جائے "بھائی جی یہ کیا لکھا ہے؟"

میرے خیال میں جس شخص کو سزا دینی ہو اس کو سوال یا جواب رومن اردو میں کر دیا جائے تو اس کے لیے کافی ہے، خاص کر اگر وہ چالیس سال سے زائد عمر کا ہے۔ میں نے کئی دفعہ ٹی وی شو کے میزبانوں کو "ناظرین کے کمنٹس" پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس وقت ان کو خاصی پریشانی ہوتی ہے۔ رومن اردو سے کچھ گزارہ تو ہو جاتا ہے مگر وہ طمانیت نہیں حاصل ہوتی جو اردو رسم الخط میں پڑھنے سے ہوتی ہے۔ اگر رومن اردو میں تحریر لمبی ہو جائے تو یہ ایک تھکا دینے والا اور کافی بیزار کن کام محسوس ہوتا ہے۔

بد قسمتی سے رومن اردو کا استعمال دن بدن بڑھ رہا ہے۔ پہلے صرف عوام آپس میں اس کو ایس ایم ایس اور سوشل میڈیا پر استعمال کرتے تھے۔ لیکن اب تو موبائل فون اور ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی معلومات اور اشتہارات بھی رومن اردو میں بھیجتی ہیں۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ نہ صرف پاکستان کی بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے الیکشن مہم میں ایس ایم ایس، بلکہ صوبائی حکومت کی طرف سے سرکاری پیغامات بھی موبائل فون پر اردو یا انگریزی کے بجائے رومن اردو میں موصول ہو رہے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اردو کے فروغ، ترقی، تحفظ اور بقا کے لیے حکومت کیا کررہی ہے؟ اس وقت پاکستان میں وفاقی اور صوبائی سطح پر نجانے کتنے ہی ادارے ایسے ہیں جو اردو کے فروغ اور بقا کے لیے "دن رات کام" کررہے ہیں جن میں ’’ادارہ فروغ قومی زبان‘‘ (مقتدرہ قومی زبان)، مجلس ترقی ادب، اردو سائنس بورڈ، قومی لغت بورڈ، اکادمی ادبیات، نظریہ پاکستان فاؤئڈیشن، اردو لغت پاکستان، اقبال اکادمی، قائد اعظم اکادمی، مرکز تحقیقات اردو پروسیسنگ، وغیرہ وغیرہ ہیں جن کو حکومت کی جانب سے لاکھوں کروڑوں روپے کے ماہانہ فنڈز بھی مل رہے ہیں، لیکن ان حکومتی اداروں کی کارکردگی کیا ہے؟

خود مقتدرہ قومی زبان نے اپنی ویب سائٹ پر درج کیا ہوا کہ ادارۂ فروغِ قومی زبان (مقتدرہ قومی زبان) کا قیام 4 اکتوبر 1979ء کو آئین پاکستان 1973ء کے آرٹیکل 251 کے تحت عمل میں آیا تاکہ قومی زبان 'اردو' کے بحیثیت سرکاری زبان نفاذ کے سلسلے میں مشکلات کو دور کرے اور اس کے استعمال کو عمل میں لانے کے لیے حکومت کو سفارشات پیش کرے، نیز مختلف علمی، تحقیقی اور تعلیمی اداروں کے مابین اشتراک و تعاون کو فروغ دے کر اردو کے نفاذ کو ممکن بنائے۔

یہ ادارہ اپنے اہداف کے ساتھ کس قدر انصاف کر سکا اور کتنی کامیابی ملی، اس کا فیصلہ قارئین خود کریں۔

سوشل میڈیا اور کمپیوٹر میں اردو استعمال کیسے کریں؟

اردو زبان کا سوشل میڈیا پر استعمال بہت آسان ہے۔ آپ کو صرف اور صرف یہ کرنا ہے کہ آپ جو بھی آپریٹنگ سسٹم استعمال کر رہے ہیں۔ اس میں صرف اردو کی بورڈ انسٹال کرنا ہے۔

کمپیوٹر میں ’یونی کوڈ‘ کے آنے سے پہلے اردو انسٹال کرنا کافی مشکل کام تھا۔ لیکن اب نہیں۔ یونی کوڈ کی ایجاد سے اب کمپیوٹر میں ہر اہم زبان میں تحریر ممکن ہے۔ تقریباً تمام ہی بڑے سوفٹ ویئر یونی کوڈ کو سپورٹ کرتے ہیں، اس لیے کمپیوٹر میں اردو کا استعمال بہت آسان ہوگیا ہے۔ آپ کو اپنے کمپیوٹر سسٹم میں صرف اردو کی بورڈ ڈاؤن لوڈ کر کے انسٹال کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اردو کی بورڈ بڑے اردو اخبارات کے علاوہ بے شمار ویب سائٹس پر مفت میں دستیاب ہے جس سے آپ اپنے کمپیوٹر میں اردو تحریر با آسانی شروع کر سکتے ہیں۔

جمعہ، 3 جولائی، 2015

برمودہ ٹرائینگل جیسے دیگر پراسرار مقامات

برمودہ ٹرائینگل کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ پراسرار مقامات میں کیا جاتا ہے اور کتابوں میں سب سے زیادہ ذکر بھی اسی کے بارے میں ملتا ہے لیکن عجیب بات یہ ہے دنیا کے دیگر پراسرار مقامات کے بارے میں کم ہی بات کی جاتی ہے- آج ہم آپ کو دنیا کے دیگر پراسرار مقامات کے بارے میں بتائیں گے-

Area 51
ایریا 51 نویڈا میں واقع ہے اور یہ ایک امریکی فوجی اڈہ ہے جو کہ لاس ویگاس کے شمال میں 80 میل کے فاصلے پر واقع ہے- ایک طویل مدت سے خیال کیا جاتا ہے کہ یہ وہ جگہ جہاں نیو میکسیکو کے اڑن طشتری کے کریش کے حادثے میں پائے جانے والے خلائی مخلوق کے اجسام لائے گئے تھے- آج بھی کئی لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے اس جگہ پر عجیب و غریب روشنیاں دیکھی ہیں- اس ملٹری اڈے کے ارد گرد گارڈز گھومتے رہتے ہیں اور انہیں نزدیک آنے والے کسی بھی شخص کو گولی مارنے کا حکم ہے-
Lost City of Atlantis
اٹلانٹس کا گمشدہ شہر واقعی ایک پراسرار شہر ہے جس کے بارے میں کسی کو خبر نہیں کہ وہ کہاں ہے؟ اس افسانوی شہر کا ذکر افلاطون کی تحریروں میں ملتا ہے جو کہ 360 قبل مسیح میں لکھی گئیں- اور آج تک اس کی تلاش جاری ہے- افلاطون کے مطابق یہ ایک نیک معاشرہ تھا اور یہاں کے لوگ اپنی اسی خوبی کے ذریعے دوسرے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے تھے-
The Devil’s Sea
اس سرزمین پر صرف برمودا ٹرائینگل ہی ایک پراسرار علاقہ نہیں بلکہ جاپان میں موجود Devil’s Sea بھی برمودا سے ہی مشابہت رکھتا ہے- اس جگہ پر بھی غائب ہونے٬ مقناطیسی بے ضابطگیاں اور عجیب و غریب روشنیوں کے معاملات رپورٹ کیے گئے ہیں- جاپانی حکومت نے اس مقام کی تحقیقات کے لیے 1952 میں ایک بحری جہاز the Kaio  روانہ کیا تو یہ جہاز بھی غائب ہوگیا-
Mystery Spot
یہ کیلفورنیا کے علاقے سانٹا کروز کا ایک ایسا پراسرار مقام ہے جو طبعیات کے قوانین کی سراسر نفی کرتا دکھائی دیتا ہے- یہاں آپ کے ساتھ بہت سی عجیب و غریب چیزیں ہوتی ہیں جیسے کہ پانی اوپر کی جانب بہتا ہے٬ یا پھر لوگ سیدھے کھڑے ہوتے ہیں لیکن ظاہر ایسا ہوتا ہے کہ جیسے وہ ترچھے کھڑے ہوں- ہوسکتا ہے یہ نظروں کا دھوکا بھی ہو لیکن اگر آپ ایک مرتبہ یہاں چلے گئے تو اس جگہ کو بھلانا آپ کے لیے انتہائی مشکل ہوگا-
Lake Anjikuni
اس جھیل کا شمار بھی دنیا کے پراسرار مقامات میں کیا جاتا ہے- یہاں گمشدگی کا ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا- کینیڈا میں واقع اس جھیل کے کنارے 2000 افراد پر مشتمل پورا ایک گاؤں آباد تھا- نومبر 1930 میں نہ جانے کیا واقعہ پیش آیا کہ یہاں کے تمام افراد اچانک غائب ہوگئے جبکہ ان کی خوراک٬ ساز و سامان اور ہتھیار سب اپنی جگہ موجود تھے- جب یہاں کھدائی کی گئی تو 7 کتوں کی لاشیں برآمد ہوئیں جو کہ بھوک سے مرگئے تھے جبکہ گاؤں میں کھانے کی ایک کثیر مقدار موجود تھی اور انسانوں کی غیرموجودگی میں یہ کتے آسانی کھانا کھا سکتے تھے- آج تک کوئی نہیں جانتا کہ اس گاؤں کے رہائشیوں کے ساتھ کیا ہوا-
Superstition Mountains
یہ پراسرار پہاڑ ایریزونا کے علاقے Phoenix کے مشرق میں واقع ہیں- ان پراسرار پہاڑوں کی تاریخ 18 ویں صدی سے اس وقت سے جاملتی جب یہ فرض کیا گیا ہے ایک جیکب والٹز نامی شخص نے ان پہاڑیوں میں سونے کی کان دریافت کی لیکن اس شخص نے اس کان کا محل وقوع کو اپنی موت تک راز رکھا- ان پہاڑوں کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ شکاری پہاڑ ہیں اور جو بھی یہاں سونا تلاش کرنے جاتا ہے وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے- وہاں کے مقامی افراد انہیں جہنم کا دروازہ کہتے ہیں-
Brown Mountain Lights
یہ پہاڑ نارتھ کیرولینا میں واقع ہے اور 1913 کے آغاز میں اس پہاڑ پر اس کے نزدیک کچھ پراسرار روشنیاں دیکھی گئیں- ان روشنیوں کی تفصیلات کچھ یوں بیان کی جاتی ہے کہ بظاہر ان روشنیوں کا کوئی پیٹرن نہیں تھا اور نہ ہی یہ معلوم ہوتا تھا کہ ان کی ابتدا کہاں سے ہوئی- یہ روشنیاں بہت مقبول ہوئیں-
Bigelow Ranch
یہ مقام اتھا میں 480 ایکڑ کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور انتہائی عجیب و غریب مقام ہے- یہاں 1950 میں بہت سے عجیب واقعات پیش آئے جس میں اڑن طشتری کا دکھنا اور جانوروں کے اعضا کا کٹنا شامل ہے- 1994 میں اس وقت ان واقعات میں تیزی آگئی جب اس جگہ دو افراد نے خریدا- ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہاں اڑن طشتریاں دیکھی ہیں اس کے علاوہ بھی ان لوگوں نے یہاں کئی عجیب و غریب واقعات دیکھے-
Michigan Triangle
یہ ایک بہت بڑی جھیل ہے جس کا اپنا ایک پراسرار ٹرائینگل ہے اور اس کی زد میں آنے والی ہر چیز غائب ہوجاتی ہے چاہے وہ پانی میں ہو یا ہوا میں- سب سے مشہور واقعہ جو یہاں پیش آیا وہ ایک کمرشل فلائٹ کا تھا- یہ فلائٹ 1950 میں اس مقام سے گزری اور اس جہاز میں 58 مسافر سوار
 تھے- لیکن اس کے بعد اس جہاز کو کبھی دوبارہ نہیں دیکھا

پیر، 15 جون، 2015

رمضان آ رہا یے


تحریر : افسانہ و ڈرامہ نگار : محمد علی رانا

گوداموں کی صاف ستھرائی کے ساتھ ساتھ انہیں کشادہ کرنے کے دن آگئے ۔یورپ کے رہنے والوں میں عقل اور شعور نام کے جراثیم ذرا برابر بھی نہیں وہ لوگ اپنے تہواروں خصوصی طور پر کرسمس کے موقع پر اشیائے خوردو نوش اور ضروریاتِ زندگی کی تمام اشیاء میں نمایا ں کمی کر دیتے ہیں جو کِسی صورت عقلمندانہ فیصلہ نہیں۔۔۔ مشتری ہو شیار باش ! مالِ غنیمت جمع کرنے کیلئے خاص قسم کی حکمتِ عملی اپنالی جائے۔ہم اپنی قسمت ہر سال کی طرح اِمسال بھی خوب چمکائیں گے۔سر پر سفید نیل سے چمکتی اور عطر سے معطر ٹوپی ہوگی ،لباس بھی خوب اجلا اور بے داغ زیبِ تن ہوگا،پانچوں وقت جبیں بھی سجدہ ریز کریں گے ،منہ میں روزہ تو ہوگا ہی’’ہاتھ میں تسبیح بگل میں مُصَلّیٰ‘‘جہاں سامانِ آخرت جمع کر رہے ہوں گے وہاں اگر چند ماہ کا سامانِ دنیا(مالِ غنیمت) بھی سمیٹ کر جمع کر لیں گے تو اِس میں حرج ہی کیا ہے۔
ماہِ رمضان میں ایک منافع بخش کاروبار گدا گری(بھیک مانگنا )بھی ہے ۔جتنا جلدی ہو سکتا ہے اپنے اثرو رسوخ کے ذریعے جلد از جلد اپنی جگہ بُک کر وا لیں قبل اِس کے ، کہ تمام سگنل، فوٹ پاتھ ،مارکٹیں،پارکوں وغیرہ پر بیرونِ شہر سے آنے والوں کا قبضہ ہو مقامی لوگوں کا پہلے حق بنتا ہے۔’’گزشتہ سال گدا گری ایکٹ کے تحت بھیک مانگتے ہوئے گرفتار ہونے والے خواجہ سرا بھکاری نے عدالت میں جج کو بتا یا تھا کہ رمضان المبارک میں دیگر تقریبات، فنکشن ،شادی بیاہ کی پارٹیاں وغیرہ نہیں ہوتیں اِس لیے مجبوراً ہمیں بھیک مانگنا پڑتی ہے‘‘۔اگر خدا نہ خواستہ آپ کو اپنا بھیک مانگنے کا ذاتی کاروبار کرنے کیلئے کوئی ٹھکانہ نہ ملے تو آپ کو ماہِ رمضان میں ہر نماز دوسری یا تیسری صف میں پڑھنی ہوگی اور نماز کے اختتام پر فوراً قبل از دعا کھڑے ہو کر چند مجبوریاں گنوائیں اللہ عزوجل کے گھر میں کھڑے ہو کر اللہ سے نہیں اللہ کے بندوں سے مانگیں ،دنیاوی کاروبار میں ترقی ہوگی ، بس آپ کے پاس بھی خواجہ سرا جیسے پختہ دلائل ہونے چاہیں۔
تحریر : افسانہ و ڈرامہ نگار : محمد علی رانا
امسال بھی بیشمار دردِ دِل رکھنے والے گمنام سخی لاکھوں کے راشن کے ہمراہ کئی زاویوں سے مختلف خوش رنگ لباس زیبِ تن کر کے تصاویر بنوا ئیں گے اورپورے رمضان مختلف اخبارات میں یہی رنگین تصاویر شائع ہوتی رہیں گیں ۔بلاشبہ ماہِ رمضان میں شیطان قید ہوجا تاہے مگر اپنے تربیت یافتہ چیلوں جنہیں پورے گیارہ ماہ کی ٹریننگ بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ دی جاتی ہے اپنا نائب بنا کر چھوڑ جاتا ہے۔ بچت بازار کے اسٹال مالکان کو سستی اشیاء فراہم کی جائیں گیں ۔یقیناًاِن اسٹال مالکان کی ایک آدھ پرچون یا فروٹ کی ذاتی دوکان بھی ہوگی۔ اب اگر وہاں بھی یہ سستا سامان پہنچا یا جاتا ہے تو اِس میں کوئی حرج تو نہیں ۔
وقتِ افطار کیلئے کثیر تعداد میں لیمن جوس آرٹی فیشل مجبوری کے تحت مارکیٹ میں آ چکے ہیں کیونکہ اصل اور خالص لیموں کا رس ڈش واش سوپ میں استعمال ہونا ہے۔ بات ماہِ رمضان کی ہو رہی ہے تو اِس حوالے سے ایک اور اہم بات گوش گزار کر تا چلوں کے رات عشاء کے بعد اللہ والے جب نمازِ تراویح میں مشغول سر سے پاؤں تک پسینے میں تر قرآن پاک کی تلاوت کا میٹھا میٹھا رس کانوں میں گھول چکے ہوں گے تو سارے دن کی گئی عین وِتروں کے وقت اچانک لائٹ آئے گی تو پسینے سے نچڑتے ہوئے کپڑوں سے ہوتی ہوئی بھیگے جسموں کو جب پنکھوں کی اے سی سے بھی ٹھنڈی ہوا چھوئے گی تو سارے دِن کے کام کی تکان اور روزے کی شدت کا احساس سیکنڈوں میں دھواں ہو جائے گا۔
یہ کریڈٹ بھی واپڈا( نیپرا)کو ہی جائے گا کے اِس ہی کی بدولت ماہِ رمضان کی ہر بابرکت رات میں غریب عوام کا رت جگا ہوگا اور صبح روزے کی حالت میں محنت مزدوری کیلے جائیں گے۔بے شک کِسی بھی قوم کی ترقی کا اندازہ اِس کی رات دِن کی محنت سے با خوبی لگایا جاسکتا ہے۔
حدیثِ مبارکہ ہے کہ تاجدارِ مدینہ منورہ ؛سلطانِ مکہ مکرمہ ﷺنے صحابہ اکرامؓ سے استفسارکیا:’’کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟‘‘صحابہ اکرام نے عرض کی ’’یا رسول اللہ ﷺ! ہم میں سے مفلس وہ ہے جِس کے پاس درہم دنیاوی سامان نہ ہو‘‘تو آپ ﷺ نے فرمایا ’’میری اُمت میں مفلس ترین وہ شخص ہے جو قیامت کے دِن نماز ،روزہ ،زکواۃ تو لے کر آئے گا مگر ساتھ ہی کِسی کو گالی بھی دی ہوگی،کِسی کو تہمت لگائی ہوگی،اُس کا مال نا حق کھایا ہوگا،اُس کا خون بہایا ہوگا،اُس کو مارا ہوگا،پس اِن سب گناہوں کے بدلے میں اِس کی نیکیاں لی جائیں گی ،پس اگر اُس کی نیکیاں ختم ہو جائیں اور مزید حقدار باقی ہوں تو ان (مظلوموں ) کے گناہ لے کر بدلے میں اس (ظالم) پر ڈالے جائیں گے ، پھر اس شخص (ظالم) کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔ صحیح مسلم شریف حوالہ (ص۱۴۹۳؛حدیث :۲۵۸۱) ۔
کالم کی دم : ’’ اِس قدر صفائیاں کیا نانی امی آرہی ہیں؟ ‘‘ مدثر نے گھر میں داخل ہوتے ہی ماں سے پوچھا ۔
’’نہیں ‘ ایک خاص مہمان آ رہا ہے ‘‘ ماں نے دیواروں سے جالے اتارتے ہوئے کہا ۔
’’ اچھا تو بڑے ماموں آ رہے ہوں گے حیدر آباد سے تبھی آپ اتنا خوش بھی ہیں ‘‘
’’ نہیں اُن سے بھی خاص ‘‘
’’ ایسا کونسا خاص مہمان ہے جِس کی خاطر آپ نے سارا گھر شیشے کی طرح چمکادیا ہے ؟‘‘
’’ ہے نا بیٹے ‘ایسا خاص مہمان ہے جِس کی آمد آمد ہے ’رمضان شریف کا بابرکت مہینہ ایک ماہ کا مہمان بن کر آ رہا ہے۔تم بھی میرے لاڈلے خوشیاں مناؤ اور دوستوں کو مبارکبادیں دو، خاص اہتمام کرو کہ مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ رہے ‘‘

تحریر : افسانہ و ڈرامہ نگار : محمد علی رانا

ہفتہ، 13 جون، 2015

گوجرانوالہ کے چڑے


لاہور سے بذریعہ جی ٹی روڈ یا ریل راولپنڈی جانے کا اتفاق ہو تو پہلا شہر گوجرانوالہ آتا ہے۔ یہ شہر ماضی میں ’’سانسی والا‘‘ کہلاتا رہا ہے۔ دراصل آج سے پانچ سو سال پہلے یہاںراجستھان کے جاٹ سانسی قبیلہ کی حکمرانی تھی۔ اِن کی مرغوب غذا ’’بلی‘‘ تھی۔

اس زمانے میں آج کارچنا دو آب علاقہ جنگل تھا۔ اسی میں دلے کی بار بھی شامل تھی۔ رچنا دوآب اور دلے کی بار میں جنگلی بلیاں بکثرت تھیں۔ یہ بلی کتے کے برابرہوتی۔ سانسی غیرمسلم قبیلہ تھا۔ پرتھوی رائے کے زمانے میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کی تعلیمات و تبلیغی سرگرمیوں کے زور کے آگے وہ نہ ٹھہر سکا۔ یہ لوگ اسلام قبول کرنے کے بجائے موجودہ گوجرانوالہ آ کر بس گئے۔

مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ مزید چار سو سال تک مسلمان ہونے سے انکارکرنے کے بعد بیسویں صدی کے اوائل تک سبھی سانسی حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔ سانسی قبیلہ کی حکومت کوپہلا دھچکا روسی یلغار سے لگا تھا۔ روسی چڑیاں اور ممولے تو گرم سمندر کی طرف زمانہ قبل از تاریخ سے آ جا رہے ہیں مگر کوہ قاف‘ قفقاز اور گروزنی کے رہنے والے مسلمانوں نے جب مغلوں‘ مرزائوں اور چوغتوں کی پیروی کرتے ہوئے کوہ ہندوکش پار کیا تو راستے میں آنے والا ہرشہرفتح کرتے چلے گئے۔


مگر رچنا اور باری دو آبہ کے علاقوں میں لہلہاتی فصلیں دیکھ کر انھوںنے اپنے ہتھیار کھولے اور انہی علاقوں میں بس گئے۔ وہ وہاں دودھ کا کاروبار کرنے لگے۔ یہی جنگجو پھر گجر کہلائے۔ رفتہ رفتہ گوجروںکی وجہ سے یہ شہر گوجرانوالہ کہلانے لگا۔وہ جاٹوں کا علاقہ مکمل طورپر فتح نہ کر سکے تو انھوں نے اِن کے ساتھ شراکت کرلی۔یوںگجرات کے شہر کی نیو پڑی۔ گوجرانوالہ شہر کے نواح میں سانسی قبیلہ کے دو مشہور علاقے‘ تھیڑی سانسی اور میاں سانسی آج بھی آباد ہیں۔

کشمیر کے ہندو راجا اپنی مسلمان رعایا پر ظلم و تشدد کا بازار گرم کیے رکھتے تھے۔ وہ ناروا ٹیکس لگاتے جیسے موجودہ دور میں بھی مروج ہیں۔ مثلاً چیکوں پر ودہولڈنگ ٹیکس‘ موبائل میں کارڈ لوڈ کرنے پر ۲۵ روپے کا جھٹکا۔ ہندو راجا غریبوں کا لہو پیتے نہ تھکتے۔ ایسے میںبعض کشمیری گھرانے سوپور‘ اننت ناگ (اسلام آباد) اور بڈگام کے شہروں سے ہجرت کر کے پنجاب چلے آئے۔ اور بہت سے گوجرانوالہ میں مقیم ہوئے۔

کشمیری خوش خوراک قوم ہے۔ پہلے بلیاں کھانے والے آئے‘ پھر چڑے اورممولے کھانے والے کوہ قاف کے گوجروں کی صورت پریوں سمیت آ گئے۔ باقی کسر سری پائے کھانے والے کشمیریوں نے پوری کر دی۔ خوش خوراکی انسان کو خود بخود پہلوانی کی طرف مائل کرتی ہے۔ لہٰذا گوجرانوالہ فنِ پہلوانی میں بہت پھلا پھولا۔ گوجر اور کشمیری کوئلوں پربھنا گوشت کھانے کے بھی دلدادہ تھے لہٰذا شہرمیں تکے کباب کا کاروبار شروع ہو گیا۔ سانسی اور مقامی پنجابی اقوام پکا ہوا گوشت‘ قورمہ وغیرہ کھانے کے عادی تھے۔ اس لیے یہاں توے (تابہ) پر کٹاکٹ کا کاروبار شروع ہوا۔

گوجرانوالہ ایسے طول بلد اور عرض بلد پر واقع ہے جہاں موسم اپنی انتہائوںکے قریب تک اپنی شان دکھاتے ہیں۔ لہٰذا گرمیوں میں وہاں پہلوانی مشروبات فروخت ہونے لگے۔ ان میںاملی‘ آلو بخارے‘ لیموںکی اسکنجبین‘ باداموں کی سردائی (گھوٹا) تخم بالنگو اور گوند کتیرا والا شربت مشہور تھے۔ جدید اورغیرمفید یورپی کولڈ ڈرنکس کا نام گوجرانوالہ کے لوگوں نے بہت بعد میں سنا۔ تب ان میں ٹنکچر کیپسی کم (سرخ مرچ کا ٹنکچر) ‘ ٹنکچر جنجر (ادرک؍ سونٹھ؍ زنجبیل کا ٹنکچر) استعمال ہوا کرتا۔یہ مشروبات غیرمشروع ہونے کے باوجود لوگ تکالیف پیٹ سے نجات کی خاطرپی لیا کرتے۔

سرہنگا (Mistlethrush)نامی روسی چڑے گوجرانوالہ کے ہوٹلوں کی مشہور غذا ہے۔ سرہنگا کی گوجرانوالہ میں اتنی کھپت ہے کہ جب موسم سرما میں یہ معصوم چڑے اپنے انجام سے بے خبر دور دراز کا سفر طے کر کے سوات پہنچیں تو وہیں شکاری انھیںپکڑ لیتے ہیں۔ شکاریوںکا یہ نیٹ ورک پنڈی بھٹیاں‘ چنیوٹ‘ فیصل آباد‘ جھنگ سے آگے بڑھتے ہوئے ساہیوال اورپاکپتن جیسے نیلی بار کے علاقوں تک پھیلا ہوا ہے۔ لیکن سرہنگوں کی کھپت اور فروخت کی سب سے بڑی منڈی گوجرانوالہ ہی میںواقع ہے۔

دور دراز سے لوگ چڑے (سرہنگے) کھانے گوجرانوالہ پہنچتے ہیں۔ انھیں کھانے کے لیے ضروری نہیں کہ آپ مرکز شہر‘ سیالکوٹی پھاٹک یا سیالکوٹی دروازے ہی کارخ کریں۔ شہر کے شمالی اور جنوبی داخلی راستوں‘ قلعہ چن دا اور لوہیانوالہ بائی پاس پر جدید ریستورانوں میںبھی یہ چڑے آپ کاذوقِ خوش خوراکی پورا کرنے کے لیے موجود ہیں۔

چڑے کڑاہی میں تلے جاتے ہیں۔ سیالکوٹی پھاٹک کے باہر ٹھیلے پر بیسن لگے چڑے بھی ملتے ہیں۔ گرمیوں میں یہ کاروبار مندا رہتاہے‘ مگر سردی شروع ہوتے ہی اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ ان ایام میں چڑا ۲۵ تا ۴۰ روپے میں ملتا ہے۔ عموماً ایک نوجوان درجن بھر چڑے کھا جاتا ہے۔ چڑا بغیر روٹی یا نان ہی تناول ہوتا ہے۔ تاہم رائتہ یا چٹنی کے ساتھ زیادہ لطف دیتا ہے۔

گوجرانوالہ کے شوقین مزاج منچلے اور نوجوان تو جب تک پیٹ نہ بھر جائے‘ چڑے کھاتے رہتے ہیں۔ یہاں کے مقامی لوگ اپنی خوش خوراکی میں امریکیوں کو بھی مات دیتے ہیں۔ لیکن امریکیوں کی طرح بے ڈول نہیں ہوتے کیونکہ اُن کی مرغوب غذا خنزیر کا گوشت‘ اسی کی چربی میں تلی اورپکی اشیا اور شراب ہے۔

اگر آپ نے کبھی چڑے نہیں کھائے تو اس کا تجربہ کرنے کے لیے گھریلو چڑا پکڑ کر اسے ذبح کریں۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ چڑے پر زیادہ گوشت نہیں ہوتا۔ بس پوست کے نیچے ہڈیوں کے ساتھ منڈھا ہوا تھوڑا سا گوشت ملتا ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے قرآن میں پرندوں کے گوشت کو جنتیوں کی خوراک بیان فرمایا ہے۔ اس کے ساتھ شراب طہور بھی ہو گی یعنی زنجیل (سونٹھ) کامشروب تاکہ غذا ہضم ہو کرجزو بدن ہو جائے۔ گوجرانوالہ کے لوگ جنت میں جانے سے قبل ہی دنیا میں یہ مزے لے رہے ہیں۔ اگر آپ کو بھی جنت کی زندگی کا لطف لینا ہو تو گوجرانوالہ پہنچ کر چڑے ضرور کھائیے۔ مگر آپ کو جیب سے کافی روپے ادا کرنے ہوں گے‘ لہٰذا معقول رقم ساتھ لے جانا نہ بھولیے گا۔

چڑوںکے علاوہ گوجرانوالہ کے ہوٹلوں میں فارمی بٹیر بھی فروخت ہوتے ہیں۔ مگر ان کے گوشت کامزہ فارمی مرغی جیسا ہی ہے۔جنگلی بٹیر کا ذائقہ حاصل کرنا ہو تو کراچی میں ایمپریس مارکیٹ‘ لاہور میں ٹولنٹن مارکیٹ یا بھاٹی گیٹ اور گوجرانوالہ میں شیرانوالہ باغ تا گوندلانوالہ اڈے تک پھیلے پنجروں والوں سے خریدئیے اور گھر میں پکا کرکھائیے۔ مگر میانوالی عیسیٰ خیل مت پہنچ جائیے گا کیونکہ وہاں کا بٹیر پالتو اور لڑاکا ہوتا ہے۔

لہٰذا ان کی قیمت سیکڑوں نہیں ہزاروں روپے تک جاتی ہے۔ عطا اللہ عیسیٰ خیلوی اورمرحوم غلام رسول شادی خیل آف کمرمثانی بھی بٹیر پالنے کے شوقین تھے۔ البتہ مولاناعبدالستار خاںنیازی کو ہم بغیر بٹیر کے صرف اونچے شملے کی پگڑی اور ہاتھ میں پکڑی چھڑی کے ساتھ دیکھتے رہے۔ یاد رہے‘ بٹیر یا چڑے کھانے کا مزہ ائیرکنڈیشنڈ کمروں میں نہیں آتا۔

اس کے لیے کھلی فضا اور تازہ ہوا کا ہونا ضروری ہے تاکہ چڑے یا بٹیر کھانے سے جنم لینے والی گرمی دماغ کو متاثر نہ کر سکے۔ اسی طرح سری پائے کھانے کا جو لطف سیالکوٹی دروازے اورریل بازار کے ٹھیلوںپر آتا ہے‘ وہ قدرتی ماحول سے دور ائیرکنڈیشنڈ کمروں میں نہیں ملتا۔ پسیناجوتی سے ایڑی تک بہ رہا ہو۔ سورج کی شعاعیں چہرے پر پڑ رہی ہوں۔ احباب کاساتھ ہو جن میںبابے بھی شامل ہوں تو تجربات کا پٹارا کھلتاہے اور محفل کشت زعفران بن جاتی ہے۔ ایسے ماحول میں کھائی جانے والی غذا کی گرمی دماغ کو نہیں چڑھتی۔

کچھ عرصہ قبل بچوںکے ساتھ مینگورہ‘ سوات جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں رات کو بازاروں میںبجلی کے تاروں پر سرہنگے اسی طرح بیٹھے دیکھے جیسے لاہور کے ڈبی بازار‘ کشمیری بازار‘ شاہ عالمی بازار اور داتا دربار میں جنگلی کبوتر بیٹھے نظر آتے ہیں۔ اب تو ویسے بھی ان تاروں میں برقی رو کم ہی دوڑتی ہے۔ لہٰذا یہ پرندوں کے بیٹھنے کا کام دیتی ہے۔ واپڈا یا لیسکو والے اپنے کھمبے اور تاریں اُتار کر لے جائیں تو اللہ پالن ہار پرندے بیٹھنے کا کوئی اور انتظام کر دے گا۔

لذت کام و دہن کے علاوہ چڑوں نے بہ زمانہ گورنر جنرل غلام محمد مرحوم ہمارے ملک کی خدمت کی تھی۔ وہ یوں کہ جب ملک غلام محمد پر فالج کا حملہ ہوا تو کسی حکیم نے انھیں دیسی چڑوں کے مغز کا حلوہ کھانے کا مشورہ دیا۔ پھر کیا تھا‘ کیا آدمی کیاجنگی گھوڑے‘ سب چڑوںکے شکار میں مصروف ہو گئے۔ ان دنوں کسی نے بتایا کہ حیدر آباد کے چڑے اس مقصد کے لیے بہترین ہیں۔ چناںچہ ہر کسی نے حیدر آبادی چڑوں پریلغار کر دی۔ روزانہ ہزاروں چڑیاں بیوہ ہونے لگیں مگر گورنر جنرل پاکستان پھر بھی صحت یاب نہ ہو سکے۔

آج کل کے حکمران نجانے کس چیز کا شکار کررہے ہیں!آپ کومعلوم ہو تو ہمیں بھی بتائیے۔ بہرحال اس مضمون کا پیغام یہ ہے کہ خوش خوراکی جرم نہیں۔ اگر ساتھ میں ذائقہ بھی ہو تو جذباتی تسکین ملتی اور پیٹ بھی بھر جاتا ہے۔ تو چلیے پھر گوجرانوالہ چلتے ہیں

جمعہ، 12 جون، 2015

میں کیا لکهوں؟

                                                                       تحریر:آفسانہ وڈرامہ نگار محمد علی رانا
سوچو کے ساگر میں ڈوبا لکھنے تو بیٹھ گیا ہوں لیکن کیا لکھوں؟ وہ لکھوں جو دنیا کیلئے اِس وقت تماشے سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ۔ میں کیا لکھوں ؟ یہی کہ دنیا اِس وقت قتل و غارت جیسی ہارر فلم کے سینما سکوپ پروجیکٹر پر چلتے مناظر سے لطف اندوز ہورہی ہے ۔ کیا یہ لکھوں کہ برما/ میاں نمار اِس وقت آگ کی بھٹی اورسلاٹر ہاؤس بنا ہوا ہے ۔ میں یہ لکھوں کہ میاں نمارمیں حوا کی بیٹیوں کی بے حرمتی کی جارہی ہے ،انہیں برہنہ کر کے نازک اعضاؤں کو تیز دھار خنجر وں سے جدا کیا جا رہا ہے ۔میں کیا لکھوں ؟ کہ معصوم بچوں کو چرغے کی مانند بھونا جا رہا ہے وہ زندہ روسٹ ہو رہے ہیں ۔یہی لکھوں کہ میاں نمار میں ظلم کا شکار ہونے والے ہزاروں روہنگیا مسلمان اِس وقت شدید پریشانی سے دوچار ہیں ، اُن کے گھر جل رہے ہیں ،اپنے اپنوں سے بچھڑ رہے ہیں وہ بے روزگار ہوچکے ہیں ۔اور کیا لکھوں؟ یہ بھی لکھ ہی دیتا ہوں کہ کئی دہائیوں سے روہنگیامسلمان بے بسی کی تصویر بنے امتِ مسلمہ کی جانب اُمید بھری نظروں سے بس دیکھ رہے ہیں ۔کیا اِس دور میں کوئی محمد بن قاسم پیدا نہیں ہو سکتا؟تیرہ لاکھ کے قریب روہنگیا مسلمانوں کا اِس وقت کون مدد گار ہے؟ بچارے چھپ کر جان بچانے کیلئے سمندروں کے رحم و کرم پر کشتیوں میں جھولتے پھر رہے ہیں لیکن ان قسمت کے مارے مسلمانوں کو کوئی بھی ملک پناہ دینے کیلئے آمادہ نہیں ۔ایک ایک کشتی میں ادھ ننگے دو دو ہزار مسلمان بھرے ہیں جو بھوک ، پیاس اور گرمی کی شدت سے نڈھال اپنا ہی پیشاب پینے پر مجبور ہیں اور ایک دوسرے پر خود ہی بھوکے جانوروں کی طرح جھپٹ رہے ہیں۔میں کیا کیا لکھوں اور کیسے لکھوں؟ کہ میرا قلم حساس ہے ۔
مجھے علم نہیں کہ اِس ہفتے روہنگیا مسلمان کِس تعداد میں شہید کیے گئے لیکن یہ علم ہے کہ ایان علی جیل میں کیا گل کھلا رہی ہے ، میٹرو بس کے منصوبے کہاں تک پہنچے ہیں ، جلسے جلوس کہاں کہاں نکالے جا رہے ہیں ، پیٹرول کی قیمتیں کیا ہیں، سیاسی دنگل میں کون شکست کھا رہا ہے ، کون سی نئی فلم آئی ہے ، کونسا گانا ہٹ ہے ،کونسی ہیروئین کا سکینڈل کِس ہیرو کے ساتھ چل رہا ہے ،فلاں سیاست دان نے کھانس دیا ہے ، فلاں ایکٹر کی کیا مصروفیات ہیں وغیرہ میرے علم میں بے پنہاں اضافہ ہے کہ مجھے میڈیا پر تقریباً یہی کچھ نظر آتا ہے البتہ چند لمحوں کی خبروں میں روہنگیا کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی ایک دو لائنیں بھی نظر سے گزرتی ہیں جو اگلے ہی لمحے شوخ وچنچل سین بدلنے کے بعددل و دماغ سے بھی گزر ہی جاتی ہیں۔
ویسے میں نے اور کیا لکھنا ہے میرے قلم کار عزیز کتنا کچھ تو لکھ چکے اور ہم سب کچھ پڑھ چکنے اور الیکٹرانک میڈیا پر دیکھ چکنے کے بعد پھر سے روز مرہ کے کاموں میں مشغول ہو چکے سچ میں ہمارے دل سختی مائل ہوچکے ہیں۔لارنس ہاؤس مین افسانہ پتھر کا دل میں لکھتا ہے کہ چابک دست سنگ تراش ایک ایسا مجسمہ بنانے میں کامیاب ہوگیاتھا جو اُسے دنیا کی تمام چیزوں سے حسین اور پیارا لگنے لگا ۔پھر اُس نے دن رات دیوتاؤں سے گڑ گڑا کر ، رو رو کر اور منتیں کر کے کِسی صورت اُس مجسمے میں جان ڈلوائی ۔عورت کا یہ مجسمہ جب جانبر ہوا تو اُس نے سامنے دیو قامت شیشے میں خودکے سراپے کو دیکھااور سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے خالق کا سر ہتھوڑے اور نوکیلے کیل کی مدد سے زمین میں گاڑ دیا اور دیوتاؤں سے مخاطب ہو کر کہا کہ اِس نے میری ناک لمبی اور ٹانگیں چھوٹی کیوں بنائی تھیں ؟
سچ ہے وہ مٹی کا مجسمہ پتھر کا دل رکھتا تھا ۔ کبھی کبھی مجھے خیال آتا ہے کہ ہمارا دل اس مجسمے کی مانند پتھر سا سخت ہوچکا ہے ۔ دنیا کے تمام مسلمان ایک برادری ہیں اور برادری میں ایک فوتگی ہو جائے تو ماتم کی لہر پورے خاندان میں دوڑ جاتی ہے مگر آ ج ہماری برادری کے مسلمان سینکڑوں کی تعداد میں جانوروں کی طرح ذبح کیے جا رہے ہیں لیکن ہمارے تھیٹر ، سینما ، کیبل ، رقص و راگ کی محفلیں ، پارٹیاں سب عروج پر ہیں عیش و نشاط کے سمندر بہہ رہے ہیں ۔ہم عملاً نہیں تو کیا قول فعل سے بھی کلمہِ حق بلند نہیں کر سکتے ؟بحریہ ٹاؤں کے چیئر مین ملک ریاض نے اپنی مددآپ کے تحت برما کے سسکتے ، بے آسرا اور مظلوم مسلمانوں کی اِس مشکل گھڑی میں اُن کا پورا پورا ساتھ دینے کا اعلان کرتے ہوئے پہلے ہی مرحلے میں 10کروڑ روپے امداد کا علان کر دیا ہے۔ملک ریاض کی طرح اپنی مدد آپ کے تحت ہم لوگ بھی بہت کچھ کرسکتے ہیں بس سوچنا یہ ہے کہ کون کیا کر سکتا ہے؟
ذرا چشمِ تصور میں ایک حساس دل کے ہمراہ روہنگیا مسلمانوں کی خوں ریزی کا مشاہدہ پورے ہوش و حواس میں کریں اُن مناظر کو نگاہوں کی جادوئی صندوقچی میں قید کر لینے کے بعد کیا حق حلال کا ایک لقمہ بھی حلق سے نیچے اتر پائے گا ؟آزمائش شرط ہے پانی کا ایک گھونٹ تک شہ رگ میں اٹک نہ جائی تو کہیے گا ۔دنیا جانتی ہے مسلمانوں کا قتلِ عام ہو رہا ہے لیکن کِسی کے کان تلے جوں تک نہیں رینگ رہی اور کہیں ایک بچی کو ایک گولی چھو کر کیا نکل جاتی ہے تو اُس معاملے کو پوری دنیا کے ممالک اور میڈیا نیزوں پر اچھالتے ہیں ۔
پاکستان کو چاہیے کہ اب اِس مسئلے کو عالمی سطح پر اُٹھائے ۔میڈیا اِن مظلوموں کیلئے اِس قدر مثبت آواز بلند کرے کے دنیا کے تمام غیر مسلم ممالک دہل کر رہ جائیں اور اقوامِ متحدہ اِس مسئلے کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ لے ۔وقت آن پہنچا ہے کہ تمام مسلمان متحد ہوجائیں اور یہ نہ بھولیں کہ آج اگر روہنگیا مسلمان ہیں تو کل ہم خود بھی کِسی آشین ویراتھوکے ناپاک ارادوں کا شکار ہو سکتے ہیں ۔ہم سب کو اپنا اپنا فرض نبھانا ہے اور جوبن پائے اپنا حصہ اِس جہاد میں شامل کرنا ہے خواہ وہ صرف لفظوں کے تیر ہی کیوں نہ ہوں ۔

جمعرات، 30 اپریل، 2015

یکم مئی لیبرڈے

یہ سردیوں کی ایک خوبصورت صبح تھی اور میں اپنے کسی رشتہ دار کے گھر سے واپس اپنے گھر جا رہا تھا۔ میں ایک ویگن میں تھا اوراپنی منزل کی طرف رواں تھا۔ میرا اسٹاپ آیا اور میں نے اترتے ہوئے ایک ایسا منظر دیکھا جو کہ ہم میں سے اکثر شاید روزانہ ہی دیکھتے ہوں گے مگر زندگی کی مصروفیت کی وجہ سے اُس پر کبھی غور نہیں کرتے ہیں۔ اس میں شاید ہمارا قصور بھی نہیں کیونکہ زندگی کی دوڑ ہے ہی ایسی کہ انسان کچھ اور سوچ ہی نہیں پاتا۔
ہاں! تو میں آپکو بتا رہا تھا کہ میں نے ویگن سے اترتے ہوئے کیا دیکھا۔ جیسے ہی میں اُترا تو میرے سامنے ایک  بھیڑ لگی ہوئی  تھی اور ایک آدمی کو تقریبًا پچّیس سے تیس لوگوں نے گھیر رکھا تھا۔ مجھے لگا خدانخواستہ کوئی حادثہ یوگیا ہے۔ میں دیکھنے کے لئے آگے بڑھا تو فوری طور پر شکر ادا کیا کہ کوئی حادثہ نہیں تھا، لیکن وہ منظر کسی حادثے سے کم بھی نہیں تھا — وہ سب مزدور تھے جو ایک آدمی سے کام مانگ رہے تھے۔
کسی نے کسّی اور بیلچا اٹھا رکھا تھا تو کسی نے روغن کے برش اور ڈبّے۔ کوئی آواز لگا رہا تھا کہ مجھے لے جاؤ صاحب، تو کوئی اپنی خدمات کے بارے میں آگاہ کررہا تھا۔ کوئی آواز لگا رہا تھا کہ ’’سر جی! تِن دن توں دھیاڑی نئ لگّی۔۔۔‘‘ تو کوئی کچھ اور فریاد لگا رہا تھا، غرض سب کی خواہش تھی کہ کام انہیں ہی ملے اور وہ کم اجرت لینے کو بھی تیار تھے۔
انہی سب میں ایک بزرگ بھی تھے جن کی عمر لگ بھگ 70 برس ہوگی۔ ہاتھ میں روغن کا ڈبَہ اورکچھ برش لئے وہ بھی یہی امید لئےخاموش کھڑے تھے کہ یہ کام انہیں مل جائے تو آج کے راشن کا انتظام ہو جائے۔۔۔
بظایراس عام سے منظر نے ایک لمحے کے لیے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ جو آدمی اپنی عمر کے اس حصے میں ہے، جہاں اس کا جسم شاید موسم کا ذرا سا تغیربھی برداشت نہ کر پاتا ہو اور ایک جگہ مسلسل کھڑے رہنا بھی اس کے لیے کسی اذیت سے کم نہ ہو۔ لیکن وہ اِن سب مشکلات کے باوجود اگر صبح سے شام تک  وہ کام کررہا ہے تو آخر کس قدر مجبوری میں ہوگا۔
اس طرح کے کئی بزرگ اورافراد ہمیں اپنے اردگرد دیکھنے کو ملتے ہیں،جنکی زندگیاں کسی امتحان سے کم نہیں ہیں۔ ان کی مجبوریاں اور پریشانیاں بھی شاید ہماری مجبوریوں اور پریشانیوں سے کہیں بڑھ کر ہیں اور اس پر ایسے لوگوں کی خودداری اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ اللہ پر ان کا یقین اب بھی قائم ہے اور امید ابھی ٹوٹی نہیں ہے۔
انسان کی زندگی امتحانات سے بھری پڑی ہے۔ ہم اگر اپنے گردوپیش نظر دوڑائیں تو بخوبی اس بات کی تصدیق ہوسکتی ہے، کیونکہ ہر کوئی آپ کو کسی نہ کسی امتحان سے گزرتا ہوا ضرور دکھائی دے گا۔ ہر کسی میں ایک بے چینی سی نظر آئے گی اور پریشانی روزمرّہ کے کاموں میں عیاں ہوگی۔ اس کی بڑی وجہ مایوسی ہے۔ جہاں ہمیں مضبوط ہونا ھوتا ہے وہاں ہم کمزور پڑجاتے ہیں۔ اگر یہی مشکل وقت ہم پر آجائے تو ہم اللہ سے شکوہ کرنے کے بجائے اس پر بھروسہ کرکے گزار لیں تو یقیناً ہم بہت سی پریشانیوں سے بچ جائیں گے۔

پیر، 20 اپریل، 2015

کاش کہ مسلمان یہ سمجهہ جائیں کہ صفائی نصف ایمان ہے "

تحریر:چوہدری عثمان نصیر
لوگ اپنے گهروں کو تو صاف رکهتے ہيں ليکن اپنے گلی محلوں کو گنده رکهتے ہيں ہميں اپنے گهر کی طرح اپنے گلی محلوں اور ملک کو بهی صاف رکهنا چاہيے اگر ہم سب اپنے محلوں کو صاف رکهيں گے تو پهر ہمارا ضلع بهی صاف ہو جائے گا توپهر ہمارا پورا ملک صاف ہو جائے گا ہمارے ملک کا نام پاکستان ہے جوکہ پاک سے شروع ہوتا ہے لہذا ہميں اسے صاف رکهانا چاہيے حکومت تو صفائی کا کام کرتی ہے ليکن اگر تهوڑی سی خود بهی کوشش کريں تو وہ دن دور نہيں کہ ہمارا ملک پاکستان صاف ستهرا ہو جائے گا اور ترقی يافتہ ممالک کی صف ميں شامل ہو جائے گا.افسوس کہ ہمارے پاکستانی جو کہ بيرون ممالک سے پاکستان آتے ہيں وہ بهی جاہلوں والی عادتيں اپنا لتيے ہيں وہ ايرپورٹ سے اتر ہی سيٹ بيلٹ کهول ديتے ہيں اور جہاں جی چاہيے رڈبول پی کے پهينک ديتے ہيں رڈبول 195 کا ملتا ہے تو مگر پينے والے ميں يہ شعور نہيں کہ اسے پينے کے بعد خالی کين کو پهينکنا کہاں ہے کاش کہ مسلمان يہ سمجهہ جائيں کہ صفائی نصف ايمان ہے اور ہماری يہ زمہ داری ہے کہ ہم نے اس ملک ميں صفائی رکهنی اور ويسے بهی صفائی نصف ايمان ہے اور جب کوئی کام کرنے سے ایمان تازہ ہوتا ہے تو ہمیں یہ کرنا چاہئے کہ الحمداللہ ہم مسلمان ہیں اور ہم کو مزہب کے حوالے سے بی صفائی کا خاص خیال رکهنا چاہیے افسوس ہم نے تو جگہ جگہ گندگی خودپهیلارکهی ہےاور وہ قوتیں جن کا تلق اس صفائی سے نہیں ہے وہ ہمارے قرآن اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث پر عمل پیراہوکر مکمل ترقی کی راہ پر گامزن اور صفائی رکهہ رہی ہیں میری دعا ہے کہ ہماری مسلمان قوم صفائی کے حوالےسے جو مذہب اسلام میں تلقین کی گی ہے اس پر عمل پیرا ہو جائیں اور یہ ملک پاکستان خوشی کااور صفائی کا گہوارہ بن سکے آمین آپ اور میں یہ دعا ہی نیں کر سکتے بلکہ اس میں اہم رول بهی ادا کر سکتے ہیں مجهے قومی امید ہے جب ہم یہ اہم رول ادا کریں گے تو ملک ملک پاکستان بهی انشاءللہ صفائی پسند ملکوں میں پہلے نہیں تو دوسرے نمبر پر ضرور آجاے گا . (انشاءاللہ)

بدھ، 25 مارچ، 2015

مجهے فخر هے که ميں پاکستانی هوں

تحر ير:عثمان ناصر (فرانس)
کچهہ پاکستانی لوگ بيرون ملک جا کر اپنے آپکو پاکستان کہلوانے ميں شرم محسوس کرتے ہيں وه اپنی زبان بولنا صرف اس ليے چهور ديتے ہيں تاکہ ميرا پاکستانیہونے کا کسی کو پتہ نہ چلے اور يہ صرف اس لئےايسا کرتے ہيں کہ پاکستان ميں نہ بجلی ہے اور نہ ہی گيس ہےاور نہ پاکستان ہيں ميں کاروبار ہے اور نہ ہی تحفظ ہے ويسے بهی پاکستانی لوگ پرديس ميں بهی جاکر ناجائز کام کرتے ہيں جوکہ پاکستان کی بدنامی کا سبب بنتے ہيں اسی طرح ہمارے سياسدان بهی الکشن سے پہلے تو بڑے بڑے وعدے کرتے ہيں اور جونہی اقتدار ہيں آتے ہيں تو انکو اپنے کيے ہوئے وعدے ياد نہيں رہتے حکمران اپنے اثاثے اور بنک بيلنس بنانے ميں مصروف ہوجاتے ہيں پهر حکمرانوں کو نہ تو کوئی لوڈشيڈنگ نظر آتی ہے اور پٹيرول کی قلت اور نہ ہی گيس بند ہونے کی کوئی پروا ہوتی ہے اور نہ ہی غريب عوام کی بهوک،پياس،کاکوئی احساس کيونکر ہوگا.
يہ تو وراثت ميں وزارتيں لے کر پيدا ہوتے ہيں انہوں نے نہ تو لوڈشيڈنگ ديکهی نہ بےروزگارری،نہ پٹرولکی قلت اورنہ ہی ان کی کبهی گيس ہوئی نہ انکی جيبدے کهبی پيسےختم ہوئے.انهيں ان چيزوں کا احساس کيوں ہوگا؟اس احساس کو جگانے کے ليے ہر پاکستانی کو اپناکردارادا کرنا ہوگا اوروہ صرف اور صرف ووٹ کے ہی ذريعے ادا کيا جاسکے گا جس ميں 20 کروڑ پاکستانی کہلوانے ميں شرم محسوس نہ ہو گی بلکہ ہر پاکستانی پوری دنياميں اپنے پاکستانی ہونے پر فخر محسوس کريےگا اورميں يہ اميد کرتا ہوں کہ پاکستانی قوم جاگ اٹهے گی اور ايک دن اپنی زمہ داری پوری کر ے گی .

ہفتہ، 28 فروری، 2015

تنہائی کی موت

ایک دفعہ میں نے ایک زرد رنگ کی تتلی پکڑ کر ایک گلاس کے نیچے بند کر دی.
اس کا دل بہلانے کے لئے میں نے دو چار رنگین پھول بھی ساتھ مقید کر دیئے.
یوں زرد تتلی کو محبوس کر کے مجھے عجیب راحت سی محسوس ھوئی.
لیکن جب میں دوپہر کا کھانا کھا کر لوٹا تو وہ تتلی پھولوں کی قبر میں پہلو کے بل پڑی تھی.
میں نے اسے پانی پلا کر زندہ کرنا چاھا تو اس کے پروں کا زرد برادہ میری انگلیوں پر اتر آیا.
اس کے خوش رنگ پر زندہ رھے لیکن وہ خود مر گئی.

منگل، 13 جنوری، 2015

ہم لڑکيوں کے ليے ايک سبق آموز پيغام

ﺍﯾﮏ ﺳﺒﻖ " ( ﺟﻮ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺁﭖ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﺌﯽ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺁﭖ ﺑﯿﺘﯽﺑﮭﯽ ﮨﻮ)! ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻟﺞ ﮐﮯ ﺍﻣﺘﺤﺎﻧﺎﺕ ﺳﮯ ﻓﺎﺭﻍ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﺑﻮﺭﯾﺖ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭﺗﮭﯽ
ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺳﺨﺖ ﺗﮭﺎ ، ﺁﺯﺍﺩﺍﻧﮧ ﮔﮭﻮﻣﻨﮯ ﭘﮭﺮﻧﮯ
ﮐﯽ ﭘﺎﺑﻨﺪﯼ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﻭﻗﺖ ﮔﺰﺍﺭﯼ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻓﯿﺲ ﺑﮏ ﺟﻮﺍﺋﻦﮐﺮ ﻟﻮﮞ
ﭘﮭﺮ ﮐﯿﺎ ﺑﺘﺎﺅﮞ ﺑﺲ ﯾﻮﮞ ﺳﻤﺠﮭﻮ ﮐﮧ ﺍﻣﯽ ﺳﮯ ﮐﺌﯽ ﺑﺎﺭ ﮈﺍﻧﭧ
ﺑﮭﯽ ﮐﮭﺎﺋﯽ ﻣﮕﺮ ﻓﯿﺲ ﺑﮏ ﺗﻮ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﺍﻭﮌﮬﻨﺎ ﺑﭽﮭﻮﻧﺎ ﮨﯽ ﺑﻦ ﮔﺌﯽ
ﮨﮯ ﺗﻮ ﻏﻠﻂ ﺑﺎﺕ ﻣﮕﺮ ﻭﻗﺘﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﺎ
ﻟﮍﮐﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻮﺟﮧﭘﺎﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﻌﺮﯾﻔﯽ ﮐﻠﻤﺎﺕ ﺳﻨﻨﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ
ﻣﺎﺣﻮﻝ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﯼﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺟﻠﺪ ﮨﯽ
ﺍﭘﻨﯽ ﻏﻠﻄﯽ ﮐﺎ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ
ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﮨﺮ ﭘﻮﺳﭧ ﭘﺮ ﺑﯿﺸﻤﺎﺭ ﮐﻮﻣﻨﭩﺲ ﺁﺗﮯ ﺗﮭﮯ
ﮐﺒﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﺑﮭﺮﯼ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﭨﯿﮓ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﺗﺎ
ﺗﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽﺍﻥ ﺑﺎﮐﺲ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﮨﺖ ﮐﺎ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﺗﺎ
ﮈﯾﭩﺲ ﮐﯽ ﺁﻓﺮ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﺗﺎﮐﺌﯽ ﭨﮭﺮﮐﯽ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﮑﮭﮯ
ﺷﺎﺩﯼ ﮐﯽ ﭘﯿﺸﮑﺶ ﺑﮭﯽ ﮐﺮ ﺩﯼﻣﮕﺮﻣﺠﮭﮯ ﺍﻣﯽ ﮐﯽ ﻭﺍﺭﻧﻨﮓ ﯾﺎﺩ ﺗﮭﯽ
ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺗﺮﺑﯿﺖ ﻣﯿﮟﮐﻮﺋﯽ ﮐﻤﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﮨﮯ
ﺍﭼﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﺮﮮ ﮐﯽ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﺳﮑﮭﺎ ﺩﯼ ﮨﮯ
ﺍﺏ ﻣﯿﮟ 24 ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﭼﻮﮐﯿﺪﺍﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﯽ
ﺑﺲ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭﮐﺒﮭﯽ ﻧﮧ ﺗﻮﮌﻧﺎ ! ﺍﻣﯽ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﮧ ﺗﻮ ﺁﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ
ﻣﮕﺮ ﻓﯿﺲ ﺑﮏ ﮐﺎﭼﺎﺭﻡ ﺳﺎﺭﯼ ﻧﺼﯿﺤﺘﯿﮟ ﺑﮭﻼ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ
ﺳﻮﭼﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻭﻗﺖ ﮔﺰﺍﺭﯼ ﮨﯽ ﺗﻮﮨﮯ ﺑﺲ
ﻣﯿﮟ ﮐﻮﻧﺴﺎ ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻓﺮﯼ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﻮﮞ
ﺟﻮ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽﮨﻮ ،ﻣﮕﺮ ﭘﮭﺮ ﯾﻮﮞ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻟﮍﮐﺎ
ﺟﻮ ﺑﻈﺎﮨﺮ ﺑﮩﺖ ﻣﮩﺬﺏ ﺗﮭﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﺳﭻ ﻣﭻﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﻨﮯ ﻟﮕﺎ
ﺑﻘﻮﻝ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺳﮑﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﺗﻮﺟﮧ ﮐﺎ ﻣﺮﮐﺰ ﺻﺮﻑ ﻣﯿﮟﺗﮭﯽ
ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮑﯽ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺁ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﭘﺮﺑﮭﺮﻭﺳﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﯽ
ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﻣﻠﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﻣﮕﺮﻣﺠﮭﮯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ
ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﮨﻮﮞ
ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺟﯿﻮﻥ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﺑﻨﻨﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﮩﺖ ﻣﻮﺯﻭﮞ ﮨﮯ
ﻣﻮﻗﻊ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﻣﯽﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﯽ ﺍﺳﮑﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ
ﻟﯿﮑﻦ ﺁﮬﺴﺘﮧ ﺁﮬﺴﺘﮧ ﺍﺳﮑﯽ ﺑﮯﺗﮑﻠﻔﯿﺎﮞ ﺑﮍﮬﻨﮯ ﻟﮕﯿﮟ
ﺍﺳﮑﯽ ﺫﻭﻣﻌﻨﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﯽﺗﮭﯽ
ﺍﯾﮏ ﭼﺒﮭﻦ ﺳﯽ ﺗﮭﯽ ﺟﻮ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﭽﻮﮐﺘﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ
ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﺍﺱﺳﮯ ﻧﺎﻃﮧ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﻣﮕﺮ
ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺟﺎﻥ ﺳﮯ ﻣﺎﺭﻧﮯ ﮐﯽﺩﮬﻤﮑﯽ ﺩﮮ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺭﻭﮎ ﻟﯿﺘﺎ ﺗﮭﺎ
ﺑﺎﺩﻝ ﻧﺨﻮﺍﺳﺘﮧ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﯽ ﭘﮍ ﺟﺎﺗﯽﺗﮭﯽ
ﭘﮭﺮ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺷﺎﻡ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻣﻠﻨﮯ ﮐﯽ ﻓﺮﻣﺎﺋﺶﮐﯽ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺗﻮ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﻣﻠﻨﺎ ﮨﯽ
ﻏﻠﻂﺩﻭﺳﺮﺍ ﮐﺴﯽ ﺭﺷﺘﮯ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ
ﮨﺮ ﻟﮍﮐﮯ ﺍﻭﺭ ﻟﮍﮐﯽﮐﺎ ﺗﻨﮩﺎ ﻣﻠﻨﺎ ﭨﮭﯿﮏ ﻧﮩﯿﮟ
ﻣﯿﺮﺍ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻭﮦ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺍﮐﮭﮍ ﺳﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧﮐﯿﺎ ﯾﺎﺭ
ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ، ﮐﻮﺋﯽ ﮐﮭﺎ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺟﺎﺅﮞﮔﺎ
ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﻧﺎ ، ﺑﺲ ﺣﺪ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻧﺮﻣﯽ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧﻏﻠﻂ ﮨﮯ
ﺟﺐ ﺩﻭ ﻟﮍﮐﺎ ﻟﮍﮐﯽ ﺍﮐﯿﻠﮯ ﮨﻮﮞ ﺗﯿﺴﺮﺍ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺑﯿﭻ ﻣﯿﮟﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ
ﻭﮦ ﺑﻮﻻ ﻏﻠﻂ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻓﯿﺲ ﺑﮏ ﺟﻮﺍﺋﻦ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ؟؟ ﺑﯿﭩﮭﺘﯽ ﻧﺎﭘﺮﺩﮮ ﻣﯿﮟ
ﯾﮩﺎﮞ ﺗﻮ ﯾﮩﯽ ﮐﭽﮫ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ! ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﻏﺼﮯ
ﻣﯿﮟﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﻓﯿﺲ ﺑﮏ ﭘﺮ ﺍﮔﺮ ﻏﻠﻂ ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﺁﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﺗﻮ ﺁﭖ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺁﺗﮯﮨﯿﮟ ، ﺍﺳﮑﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺁﭖ ﺑﮭﯽ ﺑﺮﮮ ﮨﯿﮟ
ﺑﮑﻮﺍﺱ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﻭ ، ﻣﯿﺮﺍ ﻃﻨﺰﯾﮧﺟﻮﺍﺏ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻭﮦ ﺗﮍﭖ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ
ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺘﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻢ ﺍﯾﺴﯽ ﮨﻮ ﺗﻮ ﮐﺒﮭﯽﺗﻢ ﮐﻮ ﻣﻨﮧ ﻧﮧ ﻟﮕﺎﺗﺎ
ﺳﺎﻟﯽ ﻧﮯ ﮨﻮﭨﻞ ﮐﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﯽ ﺑﮑﻨﮓ ﭘﺮ ﺍﺗﻨﮯﭘﯿﺴﮯ ﺿﺎﯾﻊ ﮐﺮﻭﺍ ﺩﺋﯿﮯ ﻣﯿﺮﮮ
ﺍﺏ ﻭﺍﭘﺲ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺍﺳﮑﯽﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﯿﺴﮯ ﭘﺘﮭﺮ ﮐﯽ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ
ﻧﺠﺎﻧﮯ ﮐﺐ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞﺳﮯ ﺩﻭ ﺁﻧﺴﻮ ﮔﺮﮮ
ﺷﺎﺋﺪ ﺷﮑﺮﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺭﺏ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯﮐﺴﯽ ﻏﻠﯿﻆ ﮔﮭﮍﮮ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺑﭽﺎ ﻟﯿﺎ
ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮩﻨﻮ
ﻣﯿﮟﻧﮯ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﺒﻖ ﺳﯿﮑﮫ ﻟﯿﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻮﭺ ﮐﻮ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞﺗﮭﯽ
ﻭﻗﺘﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﻗﺪﻡ ﻟﮍ ﮐﮭﮍﺍﺋﮯ ﺿﺮﻭﺭ ﻣﮕﺮ ﺍﻟﺤﻤﺪﻟﻠﻪ ﻣﯿﺮﮮﺍﻟﻠﻪ ﻧﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺮ ﻭﻗﺖ ﺑﭽﺎ ﻟﯿﺎ ﺍﺏ ﺁﭖ ﺳﺐ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ
ﻓﯿﺲ ﺑﮏ ﯾﺎ ﻧﯿﭧ ﮐﺎ ﻏﻠﻂ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﻧﮧ ﮐﺮﯾﮟ ﭘﻠﯿﺰ ! ﻧﯿﭧ ﭘﺮ ﻣﻠﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﺮﺷﺨﺺ ﺷﺮﯾﻒ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﻣﺮﺩ ﮐﻮ ﻧﮧ ﻣﻠﯿﮟ ،ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮨﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﭽﺎﺋﯿﮟ
ﺁﭖ ﻟﻮﮒ ﯾﮩﺎﮞ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﮐﮭﯿﻞ ﻧﮧﮐﮭﯿﻠﯿﮟ
ﺍﮔﺮ ﻣﻠﻦ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﺎ ﺣﻼﻝ ﺭﺷﺘﮧ ﺟﻮﮌﯾﮟ
ﺣﺮﺍﻣﮑﺎﺭﯼﺟﯿﺴﮯ ﮔﻨﺎﮦ ﺳﮯ ﺑﭽﯿﮟ
ﺟﻮ ﻟﮍﮐﺎ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﻣﻌﻨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻋﺰﺕ ﮐﺮﺗﺎﮨﻮ ﮔﺎ ﻭﮦ ﺑﺎﻋﺰﺕ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺳﮯ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺭﺷﺘﮧ ﺟﻮﮌﮮ ﮔﺎ
ﺍﭘﻨﮯ ﻓﺎﺭﻍ ﻭﻗﺖﮐﻮ ﮐﭽﮫ ﺍﭼﮭﺎ ﺳﯿﮑﮭﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﮐﯿﺠﺌﮯ
ﺍﻧﭩﺮﻧﯿﭧ ﭘﺮ ﭘﯿﺎﺭ ﻣﺤﺒﺖ ﯾﮧﺳﺐ ﺩﻗﯿﺎﻧﻮﺳﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮨﯿﮟ
ﻧﮧ ﺗﻮ ﭘﯿﺎﺭ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺩﻭﺳﺘﯽ
!!!ﯾﮧ ﺳﺐ ﺧﯿﺎﻟﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﺑﮩﺖ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ !!!

آلودہ پانی پینے سے ہرسال 53ہزار پاکستانی مرتے ہیں، یونیسیف

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے کہا ہے کہ آلودہ پانی پینےسے ہر سال 53 ہزار پاکستانی بچے موت کی نیند سو جاتے ہیں، پانی میں آلودگی ہیضہ، ہیپ...