ہفتہ، 13 جون، 2015

گوجرانوالہ کے چڑے


لاہور سے بذریعہ جی ٹی روڈ یا ریل راولپنڈی جانے کا اتفاق ہو تو پہلا شہر گوجرانوالہ آتا ہے۔ یہ شہر ماضی میں ’’سانسی والا‘‘ کہلاتا رہا ہے۔ دراصل آج سے پانچ سو سال پہلے یہاںراجستھان کے جاٹ سانسی قبیلہ کی حکمرانی تھی۔ اِن کی مرغوب غذا ’’بلی‘‘ تھی۔

اس زمانے میں آج کارچنا دو آب علاقہ جنگل تھا۔ اسی میں دلے کی بار بھی شامل تھی۔ رچنا دوآب اور دلے کی بار میں جنگلی بلیاں بکثرت تھیں۔ یہ بلی کتے کے برابرہوتی۔ سانسی غیرمسلم قبیلہ تھا۔ پرتھوی رائے کے زمانے میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کی تعلیمات و تبلیغی سرگرمیوں کے زور کے آگے وہ نہ ٹھہر سکا۔ یہ لوگ اسلام قبول کرنے کے بجائے موجودہ گوجرانوالہ آ کر بس گئے۔

مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ مزید چار سو سال تک مسلمان ہونے سے انکارکرنے کے بعد بیسویں صدی کے اوائل تک سبھی سانسی حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔ سانسی قبیلہ کی حکومت کوپہلا دھچکا روسی یلغار سے لگا تھا۔ روسی چڑیاں اور ممولے تو گرم سمندر کی طرف زمانہ قبل از تاریخ سے آ جا رہے ہیں مگر کوہ قاف‘ قفقاز اور گروزنی کے رہنے والے مسلمانوں نے جب مغلوں‘ مرزائوں اور چوغتوں کی پیروی کرتے ہوئے کوہ ہندوکش پار کیا تو راستے میں آنے والا ہرشہرفتح کرتے چلے گئے۔


مگر رچنا اور باری دو آبہ کے علاقوں میں لہلہاتی فصلیں دیکھ کر انھوںنے اپنے ہتھیار کھولے اور انہی علاقوں میں بس گئے۔ وہ وہاں دودھ کا کاروبار کرنے لگے۔ یہی جنگجو پھر گجر کہلائے۔ رفتہ رفتہ گوجروںکی وجہ سے یہ شہر گوجرانوالہ کہلانے لگا۔وہ جاٹوں کا علاقہ مکمل طورپر فتح نہ کر سکے تو انھوں نے اِن کے ساتھ شراکت کرلی۔یوںگجرات کے شہر کی نیو پڑی۔ گوجرانوالہ شہر کے نواح میں سانسی قبیلہ کے دو مشہور علاقے‘ تھیڑی سانسی اور میاں سانسی آج بھی آباد ہیں۔

کشمیر کے ہندو راجا اپنی مسلمان رعایا پر ظلم و تشدد کا بازار گرم کیے رکھتے تھے۔ وہ ناروا ٹیکس لگاتے جیسے موجودہ دور میں بھی مروج ہیں۔ مثلاً چیکوں پر ودہولڈنگ ٹیکس‘ موبائل میں کارڈ لوڈ کرنے پر ۲۵ روپے کا جھٹکا۔ ہندو راجا غریبوں کا لہو پیتے نہ تھکتے۔ ایسے میںبعض کشمیری گھرانے سوپور‘ اننت ناگ (اسلام آباد) اور بڈگام کے شہروں سے ہجرت کر کے پنجاب چلے آئے۔ اور بہت سے گوجرانوالہ میں مقیم ہوئے۔

کشمیری خوش خوراک قوم ہے۔ پہلے بلیاں کھانے والے آئے‘ پھر چڑے اورممولے کھانے والے کوہ قاف کے گوجروں کی صورت پریوں سمیت آ گئے۔ باقی کسر سری پائے کھانے والے کشمیریوں نے پوری کر دی۔ خوش خوراکی انسان کو خود بخود پہلوانی کی طرف مائل کرتی ہے۔ لہٰذا گوجرانوالہ فنِ پہلوانی میں بہت پھلا پھولا۔ گوجر اور کشمیری کوئلوں پربھنا گوشت کھانے کے بھی دلدادہ تھے لہٰذا شہرمیں تکے کباب کا کاروبار شروع ہو گیا۔ سانسی اور مقامی پنجابی اقوام پکا ہوا گوشت‘ قورمہ وغیرہ کھانے کے عادی تھے۔ اس لیے یہاں توے (تابہ) پر کٹاکٹ کا کاروبار شروع ہوا۔

گوجرانوالہ ایسے طول بلد اور عرض بلد پر واقع ہے جہاں موسم اپنی انتہائوںکے قریب تک اپنی شان دکھاتے ہیں۔ لہٰذا گرمیوں میں وہاں پہلوانی مشروبات فروخت ہونے لگے۔ ان میںاملی‘ آلو بخارے‘ لیموںکی اسکنجبین‘ باداموں کی سردائی (گھوٹا) تخم بالنگو اور گوند کتیرا والا شربت مشہور تھے۔ جدید اورغیرمفید یورپی کولڈ ڈرنکس کا نام گوجرانوالہ کے لوگوں نے بہت بعد میں سنا۔ تب ان میں ٹنکچر کیپسی کم (سرخ مرچ کا ٹنکچر) ‘ ٹنکچر جنجر (ادرک؍ سونٹھ؍ زنجبیل کا ٹنکچر) استعمال ہوا کرتا۔یہ مشروبات غیرمشروع ہونے کے باوجود لوگ تکالیف پیٹ سے نجات کی خاطرپی لیا کرتے۔

سرہنگا (Mistlethrush)نامی روسی چڑے گوجرانوالہ کے ہوٹلوں کی مشہور غذا ہے۔ سرہنگا کی گوجرانوالہ میں اتنی کھپت ہے کہ جب موسم سرما میں یہ معصوم چڑے اپنے انجام سے بے خبر دور دراز کا سفر طے کر کے سوات پہنچیں تو وہیں شکاری انھیںپکڑ لیتے ہیں۔ شکاریوںکا یہ نیٹ ورک پنڈی بھٹیاں‘ چنیوٹ‘ فیصل آباد‘ جھنگ سے آگے بڑھتے ہوئے ساہیوال اورپاکپتن جیسے نیلی بار کے علاقوں تک پھیلا ہوا ہے۔ لیکن سرہنگوں کی کھپت اور فروخت کی سب سے بڑی منڈی گوجرانوالہ ہی میںواقع ہے۔

دور دراز سے لوگ چڑے (سرہنگے) کھانے گوجرانوالہ پہنچتے ہیں۔ انھیں کھانے کے لیے ضروری نہیں کہ آپ مرکز شہر‘ سیالکوٹی پھاٹک یا سیالکوٹی دروازے ہی کارخ کریں۔ شہر کے شمالی اور جنوبی داخلی راستوں‘ قلعہ چن دا اور لوہیانوالہ بائی پاس پر جدید ریستورانوں میںبھی یہ چڑے آپ کاذوقِ خوش خوراکی پورا کرنے کے لیے موجود ہیں۔

چڑے کڑاہی میں تلے جاتے ہیں۔ سیالکوٹی پھاٹک کے باہر ٹھیلے پر بیسن لگے چڑے بھی ملتے ہیں۔ گرمیوں میں یہ کاروبار مندا رہتاہے‘ مگر سردی شروع ہوتے ہی اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ ان ایام میں چڑا ۲۵ تا ۴۰ روپے میں ملتا ہے۔ عموماً ایک نوجوان درجن بھر چڑے کھا جاتا ہے۔ چڑا بغیر روٹی یا نان ہی تناول ہوتا ہے۔ تاہم رائتہ یا چٹنی کے ساتھ زیادہ لطف دیتا ہے۔

گوجرانوالہ کے شوقین مزاج منچلے اور نوجوان تو جب تک پیٹ نہ بھر جائے‘ چڑے کھاتے رہتے ہیں۔ یہاں کے مقامی لوگ اپنی خوش خوراکی میں امریکیوں کو بھی مات دیتے ہیں۔ لیکن امریکیوں کی طرح بے ڈول نہیں ہوتے کیونکہ اُن کی مرغوب غذا خنزیر کا گوشت‘ اسی کی چربی میں تلی اورپکی اشیا اور شراب ہے۔

اگر آپ نے کبھی چڑے نہیں کھائے تو اس کا تجربہ کرنے کے لیے گھریلو چڑا پکڑ کر اسے ذبح کریں۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ چڑے پر زیادہ گوشت نہیں ہوتا۔ بس پوست کے نیچے ہڈیوں کے ساتھ منڈھا ہوا تھوڑا سا گوشت ملتا ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے قرآن میں پرندوں کے گوشت کو جنتیوں کی خوراک بیان فرمایا ہے۔ اس کے ساتھ شراب طہور بھی ہو گی یعنی زنجیل (سونٹھ) کامشروب تاکہ غذا ہضم ہو کرجزو بدن ہو جائے۔ گوجرانوالہ کے لوگ جنت میں جانے سے قبل ہی دنیا میں یہ مزے لے رہے ہیں۔ اگر آپ کو بھی جنت کی زندگی کا لطف لینا ہو تو گوجرانوالہ پہنچ کر چڑے ضرور کھائیے۔ مگر آپ کو جیب سے کافی روپے ادا کرنے ہوں گے‘ لہٰذا معقول رقم ساتھ لے جانا نہ بھولیے گا۔

چڑوںکے علاوہ گوجرانوالہ کے ہوٹلوں میں فارمی بٹیر بھی فروخت ہوتے ہیں۔ مگر ان کے گوشت کامزہ فارمی مرغی جیسا ہی ہے۔جنگلی بٹیر کا ذائقہ حاصل کرنا ہو تو کراچی میں ایمپریس مارکیٹ‘ لاہور میں ٹولنٹن مارکیٹ یا بھاٹی گیٹ اور گوجرانوالہ میں شیرانوالہ باغ تا گوندلانوالہ اڈے تک پھیلے پنجروں والوں سے خریدئیے اور گھر میں پکا کرکھائیے۔ مگر میانوالی عیسیٰ خیل مت پہنچ جائیے گا کیونکہ وہاں کا بٹیر پالتو اور لڑاکا ہوتا ہے۔

لہٰذا ان کی قیمت سیکڑوں نہیں ہزاروں روپے تک جاتی ہے۔ عطا اللہ عیسیٰ خیلوی اورمرحوم غلام رسول شادی خیل آف کمرمثانی بھی بٹیر پالنے کے شوقین تھے۔ البتہ مولاناعبدالستار خاںنیازی کو ہم بغیر بٹیر کے صرف اونچے شملے کی پگڑی اور ہاتھ میں پکڑی چھڑی کے ساتھ دیکھتے رہے۔ یاد رہے‘ بٹیر یا چڑے کھانے کا مزہ ائیرکنڈیشنڈ کمروں میں نہیں آتا۔

اس کے لیے کھلی فضا اور تازہ ہوا کا ہونا ضروری ہے تاکہ چڑے یا بٹیر کھانے سے جنم لینے والی گرمی دماغ کو متاثر نہ کر سکے۔ اسی طرح سری پائے کھانے کا جو لطف سیالکوٹی دروازے اورریل بازار کے ٹھیلوںپر آتا ہے‘ وہ قدرتی ماحول سے دور ائیرکنڈیشنڈ کمروں میں نہیں ملتا۔ پسیناجوتی سے ایڑی تک بہ رہا ہو۔ سورج کی شعاعیں چہرے پر پڑ رہی ہوں۔ احباب کاساتھ ہو جن میںبابے بھی شامل ہوں تو تجربات کا پٹارا کھلتاہے اور محفل کشت زعفران بن جاتی ہے۔ ایسے ماحول میں کھائی جانے والی غذا کی گرمی دماغ کو نہیں چڑھتی۔

کچھ عرصہ قبل بچوںکے ساتھ مینگورہ‘ سوات جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں رات کو بازاروں میںبجلی کے تاروں پر سرہنگے اسی طرح بیٹھے دیکھے جیسے لاہور کے ڈبی بازار‘ کشمیری بازار‘ شاہ عالمی بازار اور داتا دربار میں جنگلی کبوتر بیٹھے نظر آتے ہیں۔ اب تو ویسے بھی ان تاروں میں برقی رو کم ہی دوڑتی ہے۔ لہٰذا یہ پرندوں کے بیٹھنے کا کام دیتی ہے۔ واپڈا یا لیسکو والے اپنے کھمبے اور تاریں اُتار کر لے جائیں تو اللہ پالن ہار پرندے بیٹھنے کا کوئی اور انتظام کر دے گا۔

لذت کام و دہن کے علاوہ چڑوں نے بہ زمانہ گورنر جنرل غلام محمد مرحوم ہمارے ملک کی خدمت کی تھی۔ وہ یوں کہ جب ملک غلام محمد پر فالج کا حملہ ہوا تو کسی حکیم نے انھیں دیسی چڑوں کے مغز کا حلوہ کھانے کا مشورہ دیا۔ پھر کیا تھا‘ کیا آدمی کیاجنگی گھوڑے‘ سب چڑوںکے شکار میں مصروف ہو گئے۔ ان دنوں کسی نے بتایا کہ حیدر آباد کے چڑے اس مقصد کے لیے بہترین ہیں۔ چناںچہ ہر کسی نے حیدر آبادی چڑوں پریلغار کر دی۔ روزانہ ہزاروں چڑیاں بیوہ ہونے لگیں مگر گورنر جنرل پاکستان پھر بھی صحت یاب نہ ہو سکے۔

آج کل کے حکمران نجانے کس چیز کا شکار کررہے ہیں!آپ کومعلوم ہو تو ہمیں بھی بتائیے۔ بہرحال اس مضمون کا پیغام یہ ہے کہ خوش خوراکی جرم نہیں۔ اگر ساتھ میں ذائقہ بھی ہو تو جذباتی تسکین ملتی اور پیٹ بھی بھر جاتا ہے۔ تو چلیے پھر گوجرانوالہ چلتے ہیں

کوئی تبصرے نہیں:

آلودہ پانی پینے سے ہرسال 53ہزار پاکستانی مرتے ہیں، یونیسیف

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے کہا ہے کہ آلودہ پانی پینےسے ہر سال 53 ہزار پاکستانی بچے موت کی نیند سو جاتے ہیں، پانی میں آلودگی ہیضہ، ہیپ...