بدھ، 3 جون، 2015

پاکستان میں48فیصد لڑکے اور لڑکیاں شوقیہ ڈاکٹر بنتے ہیں

پنجابی میں شاید اس لئے کہتے ہیں ”شوق دا کوئی مل نئیں“ یہ شوقین طلبہ و طالبات ایسے ہزاروں لڑکوں اور لڑکیوں کا حق مارتے ہیں جو حقیقت میں ڈاکٹر بن کر دکھی انسانیت کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ پہلے سنتے آئے تھے کہ اکثر خوشحال گھرانوں کے بچے اور بچیاں صرف نام و نمود کےلئے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ لیتے ہیں۔ انہیں تعلیم سے زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی۔ یوں بہت سے غریب مگر حقدار بچے ان اداروں میں داخلے سے رہ جاتے تھے۔ رہی سہی کسر سیلف فنانس نے پوری کر دی۔ اب ہرامیر بچہ پیسے کے زور پر کہیں بھی داخلہ لے سکتا ہے۔اب یہ جو 48فیصد ڈاکٹر بنتے ہیں ۔ یہ دور دراز علاقوں میں پسماندہ علاقوں میں نوکری کرنے یا یوں کہہ لیں ڈیوٹی دینے کی بجائے گھروں میں آرام کی زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں یوں ان کا علم اور حکومت کا وقت اور پیسہ ضائع ہو جاتا ہے اس لئے بہتر ہے کہ حکومت میڈیکل کالجوں میں داخلے کے وقت 3 سال کم از کم دیہی اور پسماندہ علاقوں میں جاب لازمی قرار دے ورنہ ڈاکٹر صاحب یا صاحبہ پر اٹھنے والا حکومتی خرچہ واپس وصول کیا جائے۔ جتنے سستے میں پاکستانی ڈاکٹر بنتے ہیں کسی اور ملک میں طلبہ کو یہ سہولت میسر نہیں اسی لئے تو کہتے ہیں ”گھر کی مرغی دال برابر“
ڈاکٹر بننے والے ایسے طلبہ کم از کم دوسرے مستحق اور حقدار طلبہ پر ستم نہ کریں۔ان کےلئے جگہ رہنے دیں۔ حکومت اگر ایسے ڈاکٹروں کو خصوصی ہر قسم کی سہولتیں مراعات دے جو پسماندہ دور دراز علاقوں میں جاب کرتے ہوں تو بہت سے ڈاکٹر اس طرف متوجہ ہو سکتے ہیں مگر ہمارے ہاں تو شہروں کے ڈاکٹرز بھی آئے روز سڑکوں پر بیٹھے نظر آتے ہیں کبھی کسی مطالبہ پر ان کی مانگ بڑھتی جاتی ہے اور مریضوں کے ساتھ ان کا رویہ دیکھ کر تو اکثر لوگ یہی مطالبہ کرتے ہیں کہ ڈاکٹروں کے مطالبے کبھی پورے نہ ہوں.

کوئی تبصرے نہیں:

آلودہ پانی پینے سے ہرسال 53ہزار پاکستانی مرتے ہیں، یونیسیف

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے کہا ہے کہ آلودہ پانی پینےسے ہر سال 53 ہزار پاکستانی بچے موت کی نیند سو جاتے ہیں، پانی میں آلودگی ہیضہ، ہیپ...