جمعرات، 23 جولائی، 2015

عزیز بهٹی شہید کے آخری لمحات

تحریر: اصغرعلی گھرال
ستمبر11 کا سورج طلوع ہونے والا تھا۔ میجر بھٹی نے جوانوں کو بلایا اور پوجھا آپ میں سے سے اچھا پیراک کون ہے۔ دو جوان جائیں اوراپنے ساتھی مسکین علی کو پار سے لائیں۔ بہادر علی اور غلام سرور نے اس خدمت کے لیے خود کو پیش کیا۔ انہوں نے کپڑے اتار ے اور پار جانے کے لیے تیا ر ہو گئے۔ دشمن کی پوزیشن بالکل سامنے تھی۔ بھٹی کہنے لگے ابھی ذرا ٹھہر جائیں۔ پوزیشن ہٹ جاتے تو پھر جائیں۔ وہ کپڑے اتارے کافی دیر انتظار کرتے رہے۔ مگر کوئی بات بنتی نظر نہ آئی۔ دشمن کی طاقت بڑھ رہی تھی۔ میجر بھٹی نے کہا اب آپ کپڑے پہن لیں اور ہتھیار سنبھال لیں۔ ابھی پار جانا خطر نا ک ہے۔ ہم انشاءاللہ مسکین کو ضرور لائیں گے۔ ورنہ مجھے اس کا عمر بھر قلق رہے گا۔ پھر میجر عزیز بھٹی نے وائرلس سے تو پ خانہ کو بیغام دے کر دشمن کی مسکین علی کے بالمقابل پوزیشن پر فائر کرایا۔ دشمن کی تو پ بیکار ہو گئی۔ مگر اس نے ہر طرف پوزیشن لی ہوئی تھی۔ دوسر ی پوزیشنوں پر بھی فائر کرائے ۔ دشمن کے کافی جانی نقصان کے علاوہ بہت سارا اسلحہ اور ٹینک بھی بیکار ہو گئے تھوڑی دیر بعد مسکین علی کا پھر ذکر ہوا۔ اسی دوران میں دیکھا کہ دشمن کی تازہ دم فوج اگلے مورچے سنبھالنے کے لیے آرہی ہے۔ 
ان پر ایئر برسٹ مارا ۔ دشمن کی طرف سے بھی برابر گولا باری ہو رہی تھی۔ ۔ میجرعزیز بھٹی نہر ک اوپر کھڑے پوری مستعدی سے حالات کا جائزہ لے رہے تھے دشمن کی گولا باری سے جوان نذر محمد (جہلم ) شہید ہو گیا۔ میجر عزیز بھٹی اس کے قریب گئے اور رومال چہر ے پر پھیلا دیا۔ اس وقت صوبیدار غلام محمد میجر عزیز بھٹی کے پاس آئے اور کہنے لگے” صاحب ! پٹڑی کے اوپر آپ بالکل دشمن کی ذد میں ہیں۔ دشمن سامنے ہے آپ پٹڑی سے نیچے آجائیں۔ میجر بھٹی کہنے لگے ©” یہ درست ہے کہ پٹڑی کے اوپر زیادہ خطرہ ہے لیکن میں مجبور ہوں۔ اس لیے کہ یہاں اس سے زیادہ اونچی جگہ نہیں ہے جہاں سے دشمن کا مشاہدہ ہو سکے۔ مجبوراََ پٹڑی کے اوپر چلنا پڑتا ہے۔ صوبیدار صاحب اس وقت وطن عزیز کا تحفظ ہر قابل لحاظ امر سے زیاہ مقدم ہے۔ اگر جان عزیز اس راہ میں کام آئے تو اس سے زیادہ خوش قسمی اور کیا ہو سکتی ہے۔ 
صوبیدار غلام محمد نے چائے منگوائی۔ میجر بھٹی کھڑے کھڑے چائے پی ۔ دوربین سے سامنے دشمن کا جائزہ بھی لے رہے تھے۔ اور صوبدیار غلام محمد سے باتیں بھی کر رہے تھے۔ کہنے لگے ۔مجھے اپنے بیٹے ذوالفقار کی بات کئی دفعہ یاد آئی ہے ۔ جب ایمر جنسی کے تحت مجھے چھٹی سے واپس بلایا گیا تو جنگ کے متعلق باتیں ہو رہی تھیں۔ ذوالفقار کہنے لگا ” ابا جان! خوب بہادری سے لڑنا اور بز دلی نہ دکھانا” صوبیدار غلام محمد سے باتیں کر رہے تھے کہ کمانڈنگ آفیسر لفٹینیٹ کرنل ابراہیم قریشی کا پیغام آیا کہ ایک ضروری کانفرنس کے لیے فوراََ فیلڈ ہیڈ کوارٹر پہنچ جائیں۔ نائب صوبیدار شیر دل کو بلا کر کہا۔ صاحب: اب آپ کو میرے بعد سارا کام خود ہی کرنا ہو گا۔ میرے واپس آنے کت دشمن پر کڑی نظر رکھیں اور ضرورت کے مطابق فائر کرواتے رہیں۔ میں ذرا فیلڈ ہیڈکوارٹرجا رہا ہوں۔ ۲۔ کمانڈنگ آفیسر محمد ابراہیم قریشی ، میجر محمد اصغر کیپٹن انور منیر الدین اڈجوئنٹ اور کیپٹن دلشاد کوارٹر ماسٹر ، فیلڈ ہیڈ کوارٹر میں بیٹھے ہوے تھے۔ کہ میجر عزیز بھٹی کی تیز رفتار جیپ ان کے پاس آکر رکی ۔ 120 گھنٹے ، برکی کے انتہائی نازک محاذ پر تاریخی کردار ادا کرنے والا مجاہد پوری مستعدی کے ساتھ جیپ سے اترا اور تیز رفتار قدم اٹھاتا ہوا ساتھی افسروں کی جانب بڑھا۔ 
سب نے اٹھ کر میجر بھٹی کو گلے لگایا اور ان کے عظیم الشان کارنامے پر ان کو مبارک باد دی۔ میجر بھٹی کی حیرت انگیز مستعدی ، ان کے چہر ے کے تاثرات اور گلِ لالہ کی مانند سرخ آنکھیں ان کی بے تاب سرگرمیوں ، ان کے بے خواب راتوںاور عسکری تاریخ میں ان کے لاجواب کارناموں کی داستانیں سنا رہی تھیں۔ میجر بھٹی مجووزہ کانفرنس سے جلد فارغ ہونے کے بعد بعجلت تمام واپس جانے کے لیے بے قرار تھے مگر انہیں معلوم ہوا کہ انہیں کسی اہم کانفرنس کے لیے نہیں بلایا گیا بلکہ ان کے کمانڈنگ آفیسر انہیں آرام پہنچانا چاہتے ہیں۔ کرنل قریشی نے صاف الفاظ میں کہہ دیا ©” بھٹی صاحب! میں آپ کو مبارک باد دیتا ہوں آپ نے اس محاذ پر ایک تاریخی جنگ لڑی ہے۔ آپ کے پاس جوانوں کی انتہائی کم نفری کا مجھے شدید احساس رہا۔ آپ کے کارنامے حیر ت انگیز ہیں۔ 
آپ نے لاہور کو دشمن کے ناپاک ارادوں سے بچا لیا ہے۔آپ نے مسلسل چھ یو م سے مطلق آرام نہیں کیا۔ آپ اپنے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔ آپ کو آرام کی اشد ضرورت ہے۔ میں نے پہلے بھی آپ کو واپس بلایا تھا۔ مگر آپ ٹال گئے تھے۔ مجھے ڈر تھا آج بھی آپ ٹال نہ جائیں اس لیے آج بہانے سے بلایا ہے۔ میں آپ کی جگہ دوسرا افسر بھیج رہا ہوں ۔ آپ آرام کر لیں۔ آپ کو پچھلے مورچوں پر بھیج دیتے ہیں” میجر بھٹی نے کہا” جس احساس اور جذبے کے تحت آپ نے مجھے واپس بلایا ہے۔ میں اس کے لیے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوںاور تہِ دل سے اس کی قدر کرتا ہوں۔ لیکن آپ یقین مانیں میرے لیے آرام و راحت محاذ پر ہے ۔ حقیقت میں تکلیف اور آرام صرف جسمانی نہیں ہوتے ان کا تعلق انسان کے احساسات سے ہے۔مثلاََ مجھے اگلے محاذ سے واپس بلا لیا جائے تو میرے لیے یہ ایک روحانی عذاب ہو گا۔ بلا شبہ ان دنوں میں نے اپنے جسمانی آرام و آسائش اور استراحت کی پروا نہیں کی۔لیکن آپ باور کریںکہ مجھے اس کا بہت زیادہ صلہ ملا ہے۔ جذباتی طور پر یہ لمحات میرے لیے انتہائی روحانی مسرت اور اطمینان کا باعث ہوئے ہیں۔ 
مجھے فخر ہے کہ میرے جوانوں نے اپنی قوت ایمانی اور کوہ پیکر عزم سے دشمن کی گئی گنا زیادہ فوج اور بے پناہ اسلحہ کے باوجود ا س کی یلغار کو روک دیا ہے۔ اور ہر مقابلے میں اسے شکست دی ہے مگر مجھے یہ احساس ہے کہ پاکستان کے پاس اتنی زیادہ فوج نہیں کہ ہم ہر محاذ پر تازہ دم فوج بھیج کر سب مجاہدین کو آرام دلا سکیں۔ دریں حالات میرے لیے یہ امر ناقابل تصور ہے کہ میں اپنے جوانوں کو محاذ پر چھوڑ کر یہاں آرام کرنے بیٹھ جاﺅں!ملک کا بچہ بچہ بر سر پیکار ہے ۔ یہ صرف لاہور کے تحفظ کا سوال نہیں ہے۔ پاکستان بلکہ اسلام کے تحفظ کا سوال ہے۔ محترم قریشی صاحب ! ملک و ملت پر موجودہ نازک وقت ہم سے عظیم قربانیوں کا تقاضا کر تا ہے ۔ واللہ ! میں تو اس راہ میں جان عزیز کی قربانی بھی حقیر سمجھتا ہوں ۔ خدا کے لیے آپ میرے لیے تشویش نہ کریں۔ میرے اعصاب بڑے مضبوط ہیں۔مجھے کوئی تکان محسوس نہیں ہوتی ۔ میں آرام نہیں کرنا چاہتا۔ میں پچھلے مورچوں پر نہیں جاﺅں گا بلکہ وطن پاک کی حفاظت کرتے ہوئے جا م شہادت نوش کرنا پسند کروں گا۔ 
کرنل قریشی میجر بھٹی کے دلائل ، ان کے جوش جہاد اور ملک و ملت کے لیے جذبہ ایثار سے بے حد متاثر ہوئے ۔ انہوں نے محسوس کیا کہ میجر بھٹی کو محاذ سے واپس بلانا ان کے ساتھ ظلم کے متراد ف ہو گا۔ البتہ انہوں نے میجر عزیز کو اسی با ت پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ چند گھنٹے تو آرام کر لیں لیکن میجر بھٹی وہاں ایک گھنٹہ سے زیادہ نہ رکے۔ فیلڈ ہیڈ کوارٹر میں جہاں آفیسر بیٹھے تھے اس کے قریب نہر سے ایک راجباہ نکل کر گزرتا ہے ۔ میجر عزیز کو تیراکی کا بے حد شوق تھا۔ رن کچھ کے دنوں میں ان کی کمپنی نہر کے قریب متعین تھی ۔ وہ اکثر اپنا یہ شوق نہر میں تیر کر پورا کر لیا کرتے تھے۔ آج بھی میجر عزیز کپڑے اتار کر اس راجباہ میں اترے اور کئی منٹ تک اس میں الٹے سیدھے تیرتے رہے ۔ مگر آج فرض کا احساس اس شوق کی تکمیل کی راہ میں حائل تھا۔ 
وہ جلد ہی باہر آگئے اور کپڑے پہن لیے ۔ خالد اقبال نائیک کلرک کوبلایا اور کہا بر خودار کوئی کاغذ لا کر دو میں چند خطوط لکھنا چاہتا ہوں۔خالد اقبا ل نے میسج پیڈ Message Pad کا کاغذ لا کر دیا۔ انہوں نے اس کے پانچ ٹکڑے کیے اور بال پنسل سے ان پر مختلف بیانات لکھے۔ اور اپنے عزیزوں کی اپنی خیریت کی اطلاع دی۔ یہ خطوط والد صاحب کو لادیاں، ظفر کو کوئٹہ ، بھائی جان کو پیکنگ ، کیپٹن شریف اور آپا طاہر ہ کو کراچی اور چھوٹے بھائی رشید کو ڈھاکہ بیجھنا چاہتے تھے۔ لفافے تلا ش کیے تو وہاں صرف پاکستان سٹیٹ سروس کے لفافے میسر تھے۔ زندگی میں پہلی اور آخری دفعہ سرکاری سٹیشنری کو ذاتی کام کے لیے استعمال میں لائے۔ سٹیٹ سروس کے چار لفافے ملے۔ خالد اقبال کے پاس ریڈ کراس کے Humainty Gift کے لفافے پڑے تھے۔ ان میں سے بھی ایک لفافہ استعمال کیا۔ جلدی جلدی خطوط بند کرکے خالد اقبا ل کے حوالہ کیے۔ اس دن ڈاک کی ترسیل کا کوئی انتظام نہ تھا۔ دوسرے دن ہی ڈاک جا سکتی تھی۔ پھر کیپٹن کوارٹر ماسٹر دل شاد کو چھ سو روپے دیے کہ ” میرے گھر بھجوا دیں” خالداقبال اور کیپٹن دلشا د کو کراچی کا ٹیلی فون نمبر 5497 نوٹ کروایا کہ میری شہادت کی صور ت میںسب سے پہلے اس ٹیلی فون پر اطلاع دے دیں۔ 
واپس جانے لگے تو اڈجوئنٹ انور منیر الدین نے میجر بھٹی سے کہا آپ اپنی انگوٹھی واپس لے لیں۔ رات کو میں آپ کو انکار نہ کر سکا مگر میں سوچتا ہوں ہم سب ایک ہی کشتی میں سوار ہیں۔ ہماری مو ت و حیا ت مشترک ہے۔ اسی لیے اسے اپنے ہی پاس رکھیں ۔ یہ آپ ہی کے ہاتھ میں سجھتی ہے۔ منیر کے کہنے پر میجر عزیز نے خاموشی سے اپنی طلائی انگوٹھی جو ہانگ کانگ کے زمانے سے ان کی رفیق تھیں پھر پہن لیں۔ اتنے میں چائے آگئی ۔ کرنل قریشی اور دوسرے دوستوں سے رخصت ہو کر میجر بھٹی واپس محاذ پر پہنچ گئے ۔ جاتے ہی نائب صوبیدار شیر دل سے کہا کہ صاحب اب آپ آرام کریں اور میں دشمن کی خبر لیتا ہوں۔ دشمن کی پوزیشن کا جائزہ لے کر اس پر فائر کا حکم دیا۔ مگر دشمن کی ایک مشین گن جو بالکل سامنے لگی ہوئی تھی وہ کسی طرح تباہ نہیں ہو رہی تھی۔ اس لیے مسکین علی کو پار لانے کا کوئی موقع نہیں مل رہا تھا۔ کہنے لگے ایک سیکشن پار بھیجنا چاہتا ہوں۔ مگر اس نامراد توپ کو بہت زیادہ خطرہ ہے۔ 
اس تو پ کا رینج دے کر متعدد با ر فائر کرائے ۔ مگر وہ توپ کچھ اس طرح نصب تھی کہ گولہ باری اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکی۔ گولہ باری دونوں طرف سے ہو رہی تھی۔ لانس نائیک محمود زخمی ہو گیا۔ ایمبولینس میں اسے سی ایم ایچ لاہور بھیج دیا گیا۔ شام ہو چکی تھی حوالدار ماسٹر محمد اکرم کھانا لے کر آیا ۔ میجر بھٹی کے پوچھنے پر اس نے بتایا سب جوانوں میں کھانہ تقسیم ہو چکا ہے۔ اپنے متعلق کوارٹر ماسٹر اکرم سے کہنے لگے کہ میں فیلڈ ہیڈ کوارٹر چائے کے ساتھ بسکٹ وغیرہ کھا چکا ہوں ۔ اب کھانا نہیں کھاﺅں گا۔ میجر بھٹی پٹڑی پر چڑھ کر دائیں بائیں دشمن کا جائزہ لے رہے تھے۔ جہاں ضرورت سمجھتے فائر کرواتے رہے ۔ دوسری طرف سے بھی گولہ باری ہو رہی تھی۔ ایک گولہ پٹڑی کے قریب پڑا اس سے نقصان تو کوئی نہیں ہوا مگر میجر بھٹی کو کوئی خیال آیا تو مورچوں میں جا کر جوانوں سے کہنے لگے مورچوں میں جہاں کہیں انیٹیں ہیں انہیں نکال دیں ۔ ان پر بم آکر گرے تو یہ بھی بم بن جاتی ہیں اور نقصان پہنچاتی ہیں۔ آج دوسری طرف دشمن کا بہت زور تھا۔ اس محاذ پر دشمن کو تازہ کمک پہنچ رہی تھی ۔ 
میجر بھٹی کا قیاس یہ تھا کہ دشمن نہر پر عارضی پل بنانے کی کوشش کرے گا۔ چنانچہ پٹڑی پر چڑھنے والی دشمن کی ہر پارٹی کا بڑی احتیاط سے خاتمہ کرنے اور پل کے تمام علاقے میں پٹرولنگ کا حکم دے رکھا تھا۔ اور خودبھی اس کی کڑی نگرانی کر رہے تھے۔ میجر بھٹی نے تو پ خانہ والوں کو پیغام دے کرمزید کمک کا مطالبہ کیا۔ آدھی رات کو پٹڑی پر گزر رہے تھے کہ ایمبو لینس کی آواز آئی گاڑی کے قریب گئے اور ڈرائیورسے پوچھا کہ انور کیا بات ہے گاڑی کیوں سٹارٹ کر رکھی ہے۔ انور نے کہا کہ صاحب سلف خراب ہے ۔ جلدی سٹارٹ نہیں ہوتی اگر کوئی ایمر جنسی ہو گئی تو پھر بہت زیاد ہ مشکل کا سامنا ہو گا۔ اور اسے دھیکنا پڑے گا۔اللہ کا آسرا چاہیے اسے بند کردیں اور اطمینان رکھیں۔ انور نے گاڑی بند کر دی۔ پھر اس نے پوچھا صاحب اجازت دیں تو میں صبح اسے ورک شاپ لے جاﺅں اور اس کو ٹھیک کروا لاﺅں۔ کہنے لگے ہاں ضرور لے جائیں البتہ صبح دس بجے تک انتظا ر کر لیں مبادہ کوئی ایمر جنسی ہو جائے۔ انور سوچتا رہا کہ یہ دس بجے انتظارمیں کیا تک ہے۔ ایمر جنسی تو کسی وقت بھی ہو سکتی ہے۔ بہر حال وہ خاموش رہا ۔ پھر پٹڑی پر چڑھ کر دشمن کا جائزہ لیاکوئی نقل و حرکت نہ تھی۔ اتر کر انور سے کہا ایمبولینس سے سٹریچر نکالیں۔ میں ٹیسٹ کرتا ہوں آیا اس پر نیند آتی ہے یا نہیں ۔ انور نے سٹریچر نکا ل کر دیا ۔ اس پر لیٹ کر کہنے لگے ۔ بھٹی یہ تو بہت آرام دے ہے۔انور سے کہا اب آپ بھی آرام کر لیں ۔ سٹریچر سے اٹھ کر حوالدا ر اللہ دتہ امارٹر او پی سے کہا کہ میں ذرا آرام کر لوں ۔ 
آپ لوگ اتنی دیر خیال رکھیں۔ اور پل کے علاقے میں خاص احتیاط رکھیں ۔ خود پٹڑی پر ایک چکر لگا کر واپس آئے اور سٹریچر پر لیٹ گئے تھوڑی دیر اونگھنے کے بعد اٹھ بیٹھے ۔ اتنے میں اکرم کوارٹر ماسٹر چائے لے کر آ گیا۔ میجر بھٹی نے چائے کی پیالی ہاتھ میں لی ۔ آنکھیں بند تھیں۔ اکرم سے پوچھا کیا جوانوں کو چائے دے دی ہے۔ اکرم نے جواب دیا جوانوں میں چائے تقسیم ہو رہی ہے۔ پھر فرمانے لگے ہاں تو رات توپ خانہ کے چھتیس آدمی اور آئے تھے۔ ان کے لیے بھی چائے کا انتظام کیا ہے۔ اکر م نے کہا ان کے لیے بھی انتظام کر دیا ہے۔ چائے کی ساتھ پوریاں بھی تھیں۔ پوری چکھ کر کہنے لگے ۔ سب کو اسی طرح کی پوریاں تقسیم کی ہیں۔ اکرم نے کہا جی ہاں۔ سب کے لیے ایسی پوریاں تیار کروا کر لایا ہوں۔ کہنے لگے بہت مزے دار پوریاں ہیں۔ چائے ختم کر کے پیالی اسے واپس دی ۔ آنکھیں بدستور بند تھیں ۔ متواتر جاگتے رہنے کے باعث آنکھیں سوجھ چکی تھیں ۔ جھپکنے میں بھی تکلیف محسوس ہوتی تھیں اور بند کر کے کھولنا بھی تکلیف دہ تھا۔ اکر م چلا گیا تو لیٹ گئے ۔ پانچ سات منٹ بعد اٹھے اور انور کو کہا کہ سٹریچر اپنی گاڑی میں رکھ لیں۔ دنیا کے اخبار لکھ رہے تھے:
فتح اب پاکستان کے ہاتھ میںنظر آتی ہے۔ 
لاہور کے محاذ پر بھارت کی سخت پٹائی ہو رہی ہے۔ ” سنڈے ٹیلی گراف ” لندن 12 ستمبر 1965 12 ستمبر ” تو نہ دانی جاںچہ مشتاقانہ داد” اقبال پٹڑی پر چڑھ کر چکر لگایا۔ سحر قریب تھی۔ دشمن نفری سامان حرب کی کثرت کے باوجود رات بھر فوجی اہمیت کی کوئی کاروائی نہ کر سکا تھا۔ اس کی ایک وجہ تو ان کی کمان میں نہر کے اس کنارے ہمارے جوانوںکی چوکسی اور ہوشیاری تھی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ گزشتہ چھ دن کے مقابلوں میں اس محاذ پر انہوں نے دشمن کو اتنا زیادہ نقصان پہنچایا تھا کہ اب وہ نفسیاتی طور پر پر مرعوب ہو کر ذہنی شکست قبول کر چکا تھا۔ او ر اسے پیش قدمی کا حوصلہ نہیں پڑھتا تھا۔ میجر عزیز فوجی تربیت اورسروس کے دوران فنون حرب کے بہت سے کورس پاس کر رکھے تھے۔ انہوں نے بری فوج کے ہر اہم شعبہ میں بہترین تربیت اور مہارت حاصل کر رکھی تھی۔ برکی کے نازک ترین محاذ پر بھارت کی ایک برگیڈ فوج کے مقابلے میں صوبیدار عالم ذیب کی زیر قیادت 12 پنجاب کی ایک پلاٹون سمیت میجر بھٹی کی کمان میں صرف 148 جوان تھے۔ ان 148 نفوس کے ساتھ انہوں نے بھارت کے ٹڈی دل کے لشکر کا 148 گھنٹے تک مقابلہ کیا۔ انہوں نے اپنے تدبر عسکری حکمت عملی او ر بے پناہ شجاعت سے نہ صرف پہلے ہی روز دشمن کی یلغارکو روک دیا۔ اسے زبر دست جانی نقصان پہنچایا ۔
اس کے بے شمار سامان حرب تباہ کیا اور ان مٹھی بھر جانثاروں کے ساتھ 6 دن اور 6 راتیں مقابلہ کرتے ہوئے میجر عزیز بھٹی کی کمان میں صرف اس محاذ پر صرف 11جوان شہید ہوئے ۔ انہیں پٹڑ ی پر پھرتے ہوئے ، برکی سے شمال کھجورا یریا میں ایک پلاٹون کی نفری نہر کی جانب آتی ہوئی دکھائی دی۔ وائرلیس کی سے میسج پاس کیا۔ “برکی ڈراپ ون ہنڈرڈ ون راﺅنڈ فائر “(برکی سے ایک سو نیجے ایک راﺅنڈ فائر کریں) ۔ اس کی زد میں آنے والے کچھ مر گئے۔ اور کچھ بھاگے ۔ ہائی سکول کی طرف بھاگنے والوں پر گولے پھینکوائے۔
حوالدار نذیر سے کہا:” اب برباد ہو گئے ہیں” حوالدار اللہ دتہ (مارٹر او پی)کو بلایا۔ اسے کہا ۔ کہ وہ بھی جائزہ لے۔ اس نے جائزہ لے کر کہا کہ دشمن کی کوئی نقل و حرکت نظر نہیں آتی۔ سپیدہ سحر نمودار ہو رہا تھا۔ میجر عزیز بھٹی پٹڑی سے نیچے اتر آئے ۔ امان خاں سپاہی سے پانی لے کر وضو کیا اورفجر کی نماز ادا کی۔ امان خاں چائے تیا ر کرنے لگا۔ گرم پانی لے کر شیو بنائی۔ تو امان خاں نے کہا: صاحب میں پانی لا دیتا ہوں ۔
آپ غسل کر لیں۔نہر سے پانی لانا خطر ناک ہے.
امان خاں : سر میں ابھی بستی سے پانی لے آتا ہوں۔ میجر بھٹی کہنے لگے رہنے دیں اسی پانی سے زرا سر دھلا دیں۔ چنانچہ گرم پانی سے سر منہ دھویا۔ کئی دن بعد بالوں میں کنگی کی۔ یہ ان کی زندگی کی آخری صبح تھی۔ وہ غیر شعوری طور پر کسی طویل سفر کی تیار ی کر رہے تھے۔ اتنے میں صوبیدار غلام محمد آگئے۔ صوبیدار غلام محمد کے ساتھ مل کر چائے پی۔
پیالی رکھ کر اچانک غلام محمد کی طرف ہاتھ بڑھا کر کہنے لگے:
یا ر آپ کو پامسٹری میں بڑی دسترس ہے ذرا میرا ہاتھ تو دیکھیں۔ 
غلام محمد نے ہاتھ کا مشاہدہ کرنے کے بعد کہا : جناب ! آپ کے ہاتھ کی لکیریں دل و دماغ کی اعلیٰ صلاحیتوں کی غماذ ہیں۔ ہاتھ کے ابھار بڑے نمایا ں ہیں۔ یہ باتیں تو اپنی جگہ درست ہیں ۔ میں یہ معلوم کر نا چاہتا ہوں ۔ آیا میری قسمت میں شہادت بھی ہے کہ نہیں ؟ صوبیدار نے دوبارہ دونوں ہاتھوں کا بغور مشاہدہ کیااور پوری سنجیدگی سے کہہ دیا۔ جناب آپ کی قسمت میں شہادت تو ہے مگر کے بارے میں کوئی صحیح اندازہ نہیں لگا سکتا۔ کہ شہادت عمر کے کس حصہ میں نصیب ہو گی۔ میجر بھٹی نے ہاتھ پیچھے کھینچ لیااور کہا” صوبیدار صاحب ! اگر آپ صحیح اندازہ نہیں لگا سکتے تو میں آپ کو بتا دوں۔ میری شہادت بہت قریب ہے” ۔ میجر بھٹی نے امان خاں کو نئی وردی لانے کے لیے کہا۔ امان خاں وردی لے کر آیا ۔ تو دیکھ کر کہنے لگے یہ میری وردی تو نہیں ہے۔ امان خاں نے بتایا ۔ 
سر ! آپ کی وردی لانے کے لیے فیلڈ ہیڈ کوارٹر گیا۔لیکن آپ کی وردی نہیں ملی۔ وہیں سے ایک افسر نے اپنی وردی آپ کے لیے بھیج دی ہے۔ کہنے لگے ©”ان کی مہر بانی رہنے دیں۔ ابھی یہی وردی ٹھیک ہے” پھر مسکراتے ہوئے فرمانے لگے ” وردی اورکفن اپنا ہی سجتا ہے۔ میجر بھٹی کی زندگی کا آخری سورج طلوع ہو چکا تھا۔ کمپنی ہیڈ کوارٹر کے پاس حوالدار نذیر کی پلاٹون کی بائیں جانب سے نہر کی پٹڑی کے اوپر آئے اور دوربین کے ساتھ مشاہدہ کرنے لگے۔ حوالدار میجر فیض علی پٹڑی کے نیچے تھا۔ دشمن کی طرف سے فائر آرہا تھا۔ فیض علی نے میجر بھٹی سے کہا۔ ” سر ! فائر آرہا ہے، نیچے آجائیں©! میجر عزیز نے جواب دیا ، نیچے سے مشاہدہ نہیں ہو سکتا بلا شبہ یہاں سے خطرہ ہے۔ لیکن موت و حیات اللہ کی طرف سے ہے اور اگر شہادت میرے مقدر میں ہے تو زہے قسمت ۔ اتنے میں برکی سے نہر کی طرف بڑھتے ہوئے چند ٹینک نظر آئے ان کے پیچھے پیدل فو ج بھی تھی۔ 
میجر بھٹی ڈگری دے کر فائر کروایا ۔ گولہ نشانہ پر نہ پڑا دوبارہ میسج پاس کیا اس مرتبہ گولے صحیح نشانوں پر پڑے ۔ بڑے خوش ہوئے ۔ دشمن کے ٹیکن تباہ ہوئے توپ خانہ کا انچارج کیپٹن انور فائر کروا رہا تھا ۔ خوش ہو کر کہا۔ ” ویلڈن انور ” یہ الفاظ ان کی زبا ن پر ہی تھے کہ سامنے سے ایک گولہ آیا جو ان کے قریب شیشم کے درخت کو قلم کرتا ہوا اینٹوں کے اس ڈھیر پر گولہ گرا جو مورچوں سے نکال کر وہاں اکٹھی کی ہوئی تھیں۔ میجر بھٹی اس جگہ سے بمشکل چند فٹ کے فاصلہ پر کھڑے تھے۔ پٹڑی پر گردو وغبار اٹھا۔ ساتھیوں نے سمجھا کہ میجر صاحب زخمی ہو گئے ہیں۔ وہ بھاگ کر آگے بڑے مگر میجر بھٹی کو خراش تک نہیں آئی ۔ ساتھیوں سے کہا آپ فوراََ واپس اپنی پوزیشنیں واپس لے لیں یہ گولہ میرے لیے نہیں تھا۔ ابھی وہ گولہ بھارت کا کارخانے میں تیا ر نہیں ہوا۔ صبح کے 9:30 بجے رہے تھے۔ تقدیر میجر عزیز بھٹی کے ان الفاظ پر مسکرا رہی تھی ۔ وہ دوربین لے کر دشمن کا مشاہدہ کرنے والے ہی تھے کہ اسی لمحہ ٹھو س فولاد کا ایک گولہ ان کے سینے کو چیرتا ہوا دائیں پھیپڑے سے پا ر ہو چکا تھا۔ وہ منہ کے بل زمین پر گرے ۔ حوالدار میجر فیص علی اور سپاہی امان خاں دوڑ کر ان کے پا س پہنچے تو فرض شناسی اور شجاعت کا پیکر قربانی کے ایثار کا مجسمہ اور عسکری تاریخ کا عظیم ہیرو اپنے فرض سے سبکدوش ہو رہا تھا۔ لو وصل کی ساعت کی آپہنچی پھر حکم حضور ی پر ہم نے آنکھوں کے دریچے بندکیے اور سینے کا درباز کیا۔۔۔۔۔۔فیض

کوئی تبصرے نہیں:

آلودہ پانی پینے سے ہرسال 53ہزار پاکستانی مرتے ہیں، یونیسیف

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے کہا ہے کہ آلودہ پانی پینےسے ہر سال 53 ہزار پاکستانی بچے موت کی نیند سو جاتے ہیں، پانی میں آلودگی ہیضہ، ہیپ...