ڈرون کا نام پاکستان میں نفرت اور خوف کی علامت ہے جس سے امریکا وطن عزیز کی جغرافیائی حدود پامال کرتا ہے لیکن جدید ٹیکنالوجی کے حامل ان طیاروں سے آفت زدہ علاقوں میں پھنسے لوگوں کی نشاندہی، دواؤں اور خون کی فراہمی کےعلاوہ خوراک بھی پہنچائی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں اسے کئی تعمیری مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی بھی کوششیں کی جارہی ہیں۔
قدرتی آفات اور ڈرون
فضائی ڈسپنسری
سوئزرلینڈ کی ایک کمپنی ’میٹرنیٹ‘ نے اس سال اپنے پہلے ڈرون کا کامیاب تجربہ کیا جس کے ذریعے 20 کلوگرام وزنی طبی سامان 12 میل کے فاصلے تک بہت آسانی سے پہنچایا جاسکتا ہے۔ اس میں دوائیں، خوراک اور ابتدائی طبی آلات موجود ہیں جسے پاپوا نیوگنی اور ہیٹی کے دوردراز اور مشکل علاقوں میں لوگوں تک بھیجنے کا عملی مظاہرہ کیا گیا ہے۔ اس ڈرون کو موبائل ایپ کے ذریعے بھی اڑایا اور کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ وزن لےجانے کی غیرمعمولی صلاحیت کی وجہ سے اسے فضا میں اڑنے والی ڈسپنسری بھی کہا جارہا اور یہ ٹیکنالوجی کمرشل بنیادوں پر دستیاب ہے۔ ذرا پاکستان میں زلزلے، سیلاب اور دیگر آفات کا تصور کیجئے اور ان ڈرونز کو دیکھیے کہ ہماری کتنی مشکلات ان ایجادات سے حل ہوسکتی ہیں۔
مچھر پکڑنے والے ڈرون
دنیا میں کمپیوٹرسافٹ ویئر بنانے والی سب سے بڑی کمپنی مائیکروسوفٹ نے ’’پروجیکٹ پریمونیشن‘‘ کے نام سے ایک منصوبہ شروع کیا ہے جس میں ڈرون فضا میں پرواز کرتے ہوئے مچھر پکڑنے اور ہوا میں موجود جراثیم کا تجزیہ کرتے ہوئے کسی وبا یا بیماری کے پھوٹنے سے قبل ہی ڈاکٹروں کو خبردار کرنے کا کام کریں گے۔ ان ڈرونز میں موجود لیبارٹری مچھروں کا تجزیہ کرکے بتاسکے گی کہ ملیریا اور ڈینگی کی نئی وبا کب اور کیسے پھیل سکتی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں