منگل، 10 مارچ، 2015

قراقرم کے گليشيئر کيوں نہيں پگهلتے؟

قراقرم کے گلیشیئر کیوں نہیں پگھلتے؟ دنیا بھر کے ماہرین چکراکر رہ گئے...
رضی خان
موسمیاتی تبدیلیاں اتنی تیزی سے وقوع پذیر ہو رہی ہیں کہ انہوں نے ماہرین کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے زمین گرم سے گرم تر ہو رہی ہے۔ ایسے میں مختلف پہاڑی سلسلوں میں موجود برف کے ذخائر پگھلنے کی وجہ سے غیر متوقع سیلاب اور طوفان دنیا کی بڑی آبادی کے لیے درد سر بن چکے ہیں۔ حالیہ دنوں میں پاکستان اور بھارت میں آنے والے سیلاب اس کی ایک مثال ہیں۔ گلیشیروں کا پگھلاؤ ایک ایسا موضوع ہے جس پر ماہرین موسمیات برسوں سے سر کھپائی کر رہے ہیں۔

ایک طبقہ فکر زمین پر پھیلی گرین ہاؤس گیسوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے تو دوسرا یہ کوڑی لاتا ہے کہ زمین گرم ہونے کا نظریہ کوئی بنیاد نہیں رکھتا۔ گلیشیئر پگھل رہے ہیں، لیکن ایسے میں کچھ گلیشیئر ایسے ہیں، جو نہ صرف یہ کہ پگھل نہیں رہے بلکہ ان میں برف کی مقدار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جی، قراقرم سلسلے میں موجود گلیشیئر نہ صرف اپنے حجم کو برقرار رکھتے ہیں بلکہ بعض صورتوں میں ان کا پھیلاؤ بڑھ رہا ہے۔

قراقرم پاکستان، انڈیا اور چین کے سرحدی علاقوں میں پھیلا ہوا پہاڑی سلسلہ ہے اور یہ ایک بڑے پہاڑی سلسلے ہمالیہ کا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ قراقرم دنیا کی دوسری بلند ترین پہاڑی چوٹی کے ٹو کا گھر بھی ہے۔ ماہرین کے لیے یہ ایک معما تھا۔ اب سامنے آنے والی ایک نئی تحقیق سے یہ بات کھل گئی ہے۔ ان ماہرین نے اپنی تحقیق کی روشنی میں یہ وضاحت پیش کردی ہے کہ کیوں قراقرم سلسلے میں موجود گلیشیئر پگھلنے کی بجائے بڑے ہو رہے ہیں۔

ماہرین کا خیال ہے کہ ہمالیہ میں ترسوب سازیprecipitationکا عمل بڑھ رہا ہے اور اس کے نتیجے میں اس کی رطوبت کا بڑا حصہ بارش کی صورت میں گرمیوں میں گرتا ہے۔ قراقرم میں ایسا نہیں ہوتا، یہاں برف سارے منظر پر کہیں زیادہ حاوی ہے۔ پرنسٹن یونیورسٹی میں ماحولیاتی و سمندری سائنس کی محقق سارہ کپنک کا کہنا ہے کہ ’’یہ بات بڑے تنازعے کا سبب بنی ہوئی تھی کہ اس خطے کے گلیشیئر نہیں پگھلتے جب کے باقی ساری دنیا میں ان میں پگھلاؤ کا عمل جاری ہے۔اس تحقیق سے یہ بات سامنے آ جاتی ہے کہ کیوں اس خطے میں برف باری میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہاں گلیشیئر بڑھ رہے ہیں یا اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب ہیں‘‘۔

قراقرام میں انڈیا، پاکستان اور چین کی سرحد پر برف پوش چوٹیوں کا ایک سلسلہ موجود ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہمالیہ۔ جس کا حصہ یہ چوٹیاں ہیں، اس کے باقی گلیشیروں میں پگھلاؤ کا عمل جاری و ساری ہے۔ کپنک کا کہنا ہے کہ انہیں خود اس بات کی بڑی بے چینی تھی کہ وہ جلد از جلد اس بات کی تہہ میں پہنچیں کہ کیوں یہ گلیشیئر باقیوں سے مختلف رد عمل دکھارہے ہیں۔

سارہ اور ان کے ساتھیوں نے سیٹیلائٹ اور پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کی مدد سے حالیہ عرصے میں اس علاقے کے درجہ حرارت اور رسوبیت کا ڈیٹا اکٹھا کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ہمالیہ کے تین مختلف علاقوں کے درمیان، کے ماڈل بھی بنائے۔ یہ ماڈل قراقرم، وسطی ہمالیہ اور جنوب مشرقی ہمالیہ کے تھے۔ یہ ماڈل پچھلے تمام ماڈلوں سے زیادہ قریب تر بنائے گئے تھے، جن کی وجہ سے ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کو سمجھنے میں بڑی مدد ملی۔

پچھلے ماڈل قراقرم کے درجہ حرارت کے بارے میں اندازہ صحیح طور پر قائم کرنے کے قابل نہ تھے۔ ان ماڈلوں میں درجہ حرارت کی زیادتی کی وجہ سے ماہرین یہاں موجود برف کے بارے میں بھی درست اندازہ قائم نہیں کر سکتے تھے۔ وسطی اور جنوب مشرقی ہمالیائی علاقے اپنی رطوبت کا بڑا حصہ مون سون سے حاصل کرتے ہیں۔ یہ رطوبت بارش کی صورت میں گرتی ہے اور برف میں نہیں ڈھل پاتی بلکہ یہ برف باری میں کمی کا باعث بنتی ہے۔

قراقرم میں اس کے بالکل اُلٹ ہوتا ہے۔ اس کا رطوبت کا بڑا حصہ سردیوں میں برف کی شکل میں ڈھل کر آسمان سے گرتا ہے۔ یہاں گرمیوں میں برف باری کم اور سردیوں میں زیادہ ہوتی ہے۔ ابھی تک ماہرین نے اس خیال کو عملی طور پر آزمایا نہیں تاہم زمینی حقائق کے مد نظر انہیں یقین ہے کہ وہ قراقرم کے گلیشیروں کے پگھلاؤ میں کمی کی اصل حقیقت تک پہنچ چکے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

آلودہ پانی پینے سے ہرسال 53ہزار پاکستانی مرتے ہیں، یونیسیف

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے کہا ہے کہ آلودہ پانی پینےسے ہر سال 53 ہزار پاکستانی بچے موت کی نیند سو جاتے ہیں، پانی میں آلودگی ہیضہ، ہیپ...