بدھ، 4 مارچ، 2015

عدل و انصاف

دو نوجوان محفل میں داخل ہوتے ہی وہاں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسکی طرف انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں "اے عمر ۔۔ یہ ہے وہ شخص"
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اُن سے پوچھتے ہیں "کیا کِیا ہے اس شخص نے۔۔۔؟"
"یا امیر المؤمنین ۔۔۔ اس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے ۔۔"
عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں "کیا کہہ رہے ہو۔۔۔۔ اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے۔۔۔؟"
عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں "کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے؟"
وہ شخص کہتا ہے "ہاں امیر المؤمنین ۔۔۔ مجھ سے قتل ہو گیا ہے انکا باپ"
عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں "کس طرح قتل ہوا ہے۔۔۔؟"
وہ شخص کہتا ہے "اے عمر ۔۔۔ انکا باپ اپنے اُونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا ۔۔۔ میں نے منع کیا۔۔۔ باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا"
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں " پھر تو قصاص دینا پڑے گا ۔۔۔ موت ہے اسکی سزا۔۔۔۔"
نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت۔۔۔ نہ کسی سے مشورے کی حاجت ۔۔۔ اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں ۔۔۔ نہ ہی اس شخص سے اسکے کُنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے ۔۔۔ نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدر شریف خاندان سے ہے ۔۔۔؟ نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں ۔۔۔؟ معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے ۔۔۔؟
اِن سب باتوں سے بھلا عمر رضی اللہ عنہ کو مطلب ہی کیا ۔۔۔؟ کیونکہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمر رضی اللہ عنہ پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ کو روک سکتا ہے ۔۔۔ حتٰی کہ سامنے عمر کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو ۔۔۔ قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا ۔۔۔!
وہ شخص کہتا ہے "اے امیر المؤمنین ۔۔۔ اُس کے نام پر جس کے حُکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں ۔۔۔ مجھے صحرا میں واپس اپنے بیوی بچوں کے پاس جانے دیجئے تا کہ میں ان کو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا ۔۔۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے ۔۔۔ میں اسکے بعد واپس آ جاؤں گا"
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں "کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحرا میں جا کر واپس بھی آ جائے گا۔۔۔؟"
مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے ۔۔۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اس شخص کا نام تک بھی جانتا ہو ۔۔۔ اسکے قبیلے خیمے یا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے ۔۔۔ کون ضمانت دے اسکی۔۔؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے۔۔؟
ہرگز نہیں ۔۔۔ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اُڑا دیا جانا ہے ۔۔۔ اور کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ سے اعتراض کرے یا پھر اس شخص کی سفارش کیلئے ہی کھڑا ہو جائے اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے ۔۔۔
محفل میں موجود صحابہ رضی اللہ عنہم پر ایک خاموشی سی چھا گئی ۔۔۔ اس صورتحال سے خود عمر رضی اللہ عنہ بھی متأثر ہیں کیونکہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے ۔۔۔
کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے۔۔؟ اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں۔۔؟ یا پھر اسکو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے۔۔؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا ۔۔۔
حضرت عمر بھی اس صورتحال پر سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں ۔۔۔ سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہوئے فرماتے ہیں "معاف کر دو اس شخص کو ۔۔۔۔"
نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجک کے سنا دیتے ہیں "نہیں امیر المؤمنین ۔۔۔ جو ہمارے باپ کو قتل کرے اسکو چھوڑ دیں ۔۔۔؟ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔"
عمر رضی اللہ عنہ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں
"اے لوگو ۔۔۔ ہے کوئی تم میں سے جو اس شخص کی ضمانت دے۔۔۔؟"
ابو ذرغفاری رضی اللہ عنہ اپنے زُہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں
"میں اس شخص کی ضمانت دیتا ہوں ۔۔۔"
عمر رضی اللہ عنہ بتاتے ہیں "ابوذر۔۔۔ اس نے قتل کیا ہے۔۔۔"
ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں "چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو ۔۔۔"
عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں"جانتے ہو اسے۔۔۔؟"
ابوذر رضی اللہ عنہ "نہیں جانتا۔۔۔"
عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں"تو پھر کس طرح اس کی ضمانت دے رہے ہو۔۔۔؟"
ابوذر غفاری کہتے ہیں "میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں اور مجھے ایسا لگتا ہے یہ شخص جھوٹ نہیں بول رہا ۔۔۔ انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا۔۔۔"
عمر رضی اللہ عنہ کچھ توقف کے بعد کہتے ہیں "ابوذر۔۔۔ دیکھ لو اگر یہ شخص تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تمہاری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا۔۔۔"
ابوذر رضی اللہ عنہ اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں "امیر المؤمنین ۔۔۔ پھر اللہ مالک ہے۔۔۔"
عمر رضی اللہ عنہ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے ۔۔۔ کچھ ضروری تیاریوں کیلئے ۔۔ بیوی بچوں کو الوداع کہنے ۔۔ اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے اور پھر اس کے بعد قصاص کی ادائیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے ۔۔۔
اور پھر تین راتوں کے بعد عمر رضی اللہ عنہ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے ۔۔۔ انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا ۔۔۔ عصر کے وقت شہر میں صلوٰۃ الجامعہ کی منادی پھر جاتی ہے ۔۔۔ نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے ۔۔۔ ابو ذرغفاری رضی اللہ عنہ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں ۔۔۔
عمر رضی اللہ عنہ سوال کرتے ہیں " کدھر ہے وہ آدمی۔۔۔؟"
ابوذر رضی اللہ عنہ مختصر جواب دیتے ہیں "مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین۔۔۔"
ابوذر رضی اللہ عنہ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جہاں سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے ۔۔۔ محفل میں ہُو کا عالم ہے ۔۔۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے۔۔۔؟
یہ سچ ہے کہ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ حضرت عمر کے دل میں بستے ہیں ۔۔۔ عمر رضی اللہ عنہ سے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو حضرت عمر دیر نہ کریں کاٹ کر ابوذر رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیں ۔۔۔ لیکن یہاں معاملہ شریعت کا ہے ۔۔۔۔ اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے ۔۔۔ کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا ۔۔۔ نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے ۔۔۔ حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔۔۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن تلوار سے اُڑا دی جانی ہے ۔۔۔
مغرب سے چند لحظات پہلے وہ شخص آ جاتا ہے ۔۔۔ بے ساختہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے۔۔۔۔۔۔ ساتھ ہی مجمع بھی "اللہ اکبر" کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے۔۔۔
عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں "اے شخص ۔۔۔ اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا۔۔۔ نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا۔۔۔"
وہ شخص کہتا ہے "اے امیر المؤمنین ۔۔۔ اللہ کی قسم بات آپکی نہیں ہے۔۔۔ بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے ۔۔۔ دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں ۔۔۔ اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحرا میں تنہا چھوڑ کر۔۔۔ جہاں نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان ۔۔۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں ۔۔۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے۔۔۔"
عمر رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کی طرف رخ کر کے پوچھتے ہیں "اے ابوذر ۔۔۔ تو نے کس بنا پر اسکی ضمانت دے دی تھی۔۔۔؟"
ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں "اے عمر ۔۔۔ مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے۔۔۔"
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک لمحے کیلئے توقف کرتے ہیں اور پھر ان دو نوجوانوں سے ان کی رضا پوچھتے ہیں "کیا کہتے ہو اب۔۔۔؟"
نوجوانوں نے جن کا باپ مرا تھا روتے ہوئے کہتے ہیں "اے امیر المؤمنین ۔۔۔ ہم اس شخص کی صداقت اور ایفائے عہد کی وجہ سے معاف کرتے ہیں ۔۔۔ ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے۔۔۔"
عمر رضی اللہ عنہ "اللہ اکبر" پکار اُٹھتے ہیں اور آنسو ان کی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گرنے لگتے ہیں ۔۔۔۔ فرماتے ہیں ۔۔۔
" اے نوجوانو۔۔۔۔ تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے۔۔۔۔"
" اے ابو ذر۔۔۔۔ اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے۔۔۔۔"
" اے صحرائی شخص۔۔۔۔ اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے۔۔۔۔"
" اور اے امیر المؤمنین۔۔۔۔ اللہ تجھے تیرے عدل و رحم دلی پر جزائے خیر دے۔۔۔۔"
(اقتباس)

کوئی تبصرے نہیں:

آلودہ پانی پینے سے ہرسال 53ہزار پاکستانی مرتے ہیں، یونیسیف

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے کہا ہے کہ آلودہ پانی پینےسے ہر سال 53 ہزار پاکستانی بچے موت کی نیند سو جاتے ہیں، پانی میں آلودگی ہیضہ، ہیپ...