اتوار، 22 مارچ، 2015

ہارٹ اٹيک کيوں ہوتا ہے

ڈاکٹر محمد اسلم پرویز
ہارٹ اٹیک مہلک امراض کے زمرے میں سرفہرست آتا ہے۔ اس کا شمار ان بیماریوں میں ہوتا ہے جو انسان کے جسم کے علاوہ اس کی نفسیات اور اس کے انداز فکر کو بھی متاثر کرتی ہیں۔
آج انسان اکیسویں صدی کے در پر دستک دے رہا ہے، خلائوں میں دریافتوں کے پرچم لہرا رہا ہے لیکن خود اپنے دل و دماغ کے عقدے حل کرنے میں ناکام ہے۔ باوجود ان تمام کاوشوں کے جو عالمی سطح پر ہو رہی ہیں، دل کے امراض اور ان کی وجوہات کے بارے میں انسان کی واقفیت بہت کم ہے، علاج غیر یقینی اور اکثر بہت مہنگے ہیں اور ان ہی وجوہات کی بنا پر دل کے مریض نفسیاتی طور پر بھی متاثر ہوتے ہیں۔ دل کے عارضے کی اطلاع پاتے ہی مریض یہ تصو ر کرلیتا ہے کہ وہ ایک خطرناک بیماری کے چنگل میں پھنس چکا ہے۔ جس سے مکمل شفا بہت مشکل ہے۔
اگرچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ دل کے امراض کا مکمل علاج مشکل ہے لیکن احتیاطی تدابیر کی مدد سے بڑی حد تک ان پر قابو پایا جا سکتا ہے ہارٹ اٹیک کی وجوہات اور تدارک کا ذکر کرنے سے پہلے مناسب ہوگا اگر دل کا بھی جائزہ لے لیا جائے۔ ہمارے جسم میں دل کی اہمیت مرکزی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ دیگر جانداروں کی طرح ہمارا جسم بھی اربوں خلیوں (سیل) سے مل کر بنا ہے۔
ہر جاندار سیل کو زندگی کے معمولات کے واسطے خوراک اور آکسیجن گیس کی ضرورت ہوتی ہے۔ آکسیجن کی موجودگی میں ہر سیل میں خوراک تحلیل ہوتی ہے جس کے نتیجے میں سیل کو توانائی حاصل ہوتی ہے اسی توانائی کی مدد سے سیل اپنے آپ کو زندہ رکھتا ہے، تقسیم ہوتا ہے اور دیگر متعلقہ معمولات جاری رکھتا ہے۔ خوراک اور آکسیجن خون کی مدد سے ہر سیل تک پہنچتی ہے۔ ہمارے جسم میں خون کی نالیوں کا باریک باریک جال ہر سیل تک خون کو پہنچاتا ہے۔
خون کو جسم کے ہر حصے تک پہنچانے کیلئے دل ایک پمپ کی مانند کام کرتا ہے۔ اس پمپ کی خصوصیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اوسطاً ہر آدمی کا دل ایک دن میں ایک لاکھ ایک ہزار مرتبہ دھڑکتا ہے اور ہر دھڑکن کے دوران وہ سکڑتا اور پھیلتا ہے۔ چونکہ دل کے پٹھوں کو اتنی زبردست محنت کرنا ہوتی ہے اس لیے وہ قدرتی طور پر کافی مضبوط اور منفرد ہوتے ہیں۔
دل میں پائے جانے والے پٹھے(Muscles) جسم میں کہیں اور نہیں پائے جاتے جس طرح جسم کے ہر سیل کو آکسیجن اور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح دل کے پٹھوں کو بنانے والے سیلوں کو بھی آکسیجن اور خوراک درکار ہوتی ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ چونکہ ان کا کام زیادہ شدید ہوتا ہے اس لیے انہیں کافی مقدار میں ان چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
خون اپنی گردش کے دوران جسم میں موجود مختلف اعضاء سے گزرتا ہے اور اس دوران اس میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور ہوتی ہے یا تو خون میں موجود کوئی چیز اس عضو میں چلی جاتی ہے یا اس میں سے کوئی چیز خون میں شامل ہو جاتی ہے۔ مثلاً خون حب پھیپھڑوں میں سے گزرتا ہے تو وہاں سے آکسیجن گیس، جو کہ ہمارے سانس اندر لینے کے عمل کے دوران پھیپھڑوں میں جاتی ہے، خون میں شامل ہو جاتی ہے۔ خون میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس جو کہ خلیوں نے خون میں خارج کر دی تھی۔ پھیپھڑوں میں نکل جاتی ہے اور جب ہم سانس باہر چھوڑتے ہیں تو باہر چلی جاتی ہے۔
خون میں خوراک شکر کی شکل میں موجود رہتی ہے۔ خون جب جگر میں سے گزرتا ہے تو وہاں پر شکر کی مقدار کنٹرول کی جاتی ہے۔
دل سے نکلنے والی نالیوں کو ہم دو اقسام میں تقسیم کرتے ہیں۔ جو نسیں خون کو دل سے جسم کی طرف لے جاتی ہیں۔ انہیں آرٹریز (شریان) کہتے ہیں جبکہ جسم سے دل کی طرف خون واپس لانے والی نسوں کو وین کہا جاتا ہے۔ آرٹریز میں خون دبائو کے ساتھ چلتا ہے۔ دل کے پٹھوں کو جو نسیں خون مہیا کرتی ہیں ان کو رونری آرٹریز (Coronary Arteries) کہا جاتا ہے۔
ایک کورونری آرٹری دل کے دائیں طرف ہوتی ہے جبکہ بائیں طرف والی آرٹری جوکہ کافی بڑی ہوتی ہے، دو شاخوں میں بٹ جاتی ہے اس طرح کل ملا کر یہ تین شریانیں دل کو خون مہیا کرتی ہیں۔
اگر ان میں سے کسی بھی نس میں کسی وجہ سے رکاوٹ آ جائے تو دل کے پٹھوں کو ملنے والی آکسیجن کی مقدار کم ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے درد ہوتا ہے اس درد کو انجائنا پیکٹورس(Angina Pectoris) یا صرف انجائنا کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ لاطینی زبان سے لیا گیا ہے جس کا مطلب ہے ’’سینے کی گھٹن‘‘ اگر مذکورہ نس میں رکاوٹ کافی زیادہ ہوتی ہے تو خون کی سپلائی بہت کم ہو جاتی ہے جب خون کی سپلائی کم ہو جاتی ہے تو ظاہر ہے آکسیجن کی سپلائی بھی کم ہو جاتی ہے۔
اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بند ہونے والی نس دل کے جس حصے کو خون سپلائی کرتی تھی، اس حصے کے پٹھے آکسیجن نہ ملنے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ اسی کو ہارٹ اٹیک کہتے ہیں، یعنی دل کا حملہ اگر دل کا کافی بڑا حصہ مردہ ہو جائے تو اس سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ (سائنس نامہ سے مقتبس)

کوئی تبصرے نہیں:

آلودہ پانی پینے سے ہرسال 53ہزار پاکستانی مرتے ہیں، یونیسیف

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے کہا ہے کہ آلودہ پانی پینےسے ہر سال 53 ہزار پاکستانی بچے موت کی نیند سو جاتے ہیں، پانی میں آلودگی ہیضہ، ہیپ...